ناگ کا چے گویرا، سنگت شفقت – فرحان بلوچ

121

ناگ کا چے گویرا، سنگت شفقت

تحریر: فرحان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سنگت شفقت کی وطن دوستی اور مخلصی، لیکن سنگت کے ساتھ جو چند لمحے گزرے، انہیں دوستوں تک پہنچانا بھی مقصود ہے۔ یقیناً آپ کی سوچ و فکر کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں آپ کی راہ پر چلنا ہوگا اور آپ کا ہمسفر بننا ہوگا۔ آپ کو کچھ عرصہ ہوا تھا کہ قومی آزادی کی تحریک میں شامل ہوئے تھے اور جلد ہی سرزمین بلوچستان کے لیے قربان ہوگئے۔ سنگت شفقت 26 اگست 2024 کو مستونگ کے علاقے کڈھ کوچہ میں آپریشن ہیروف کے دوران دشمن کو شکست سے دوچار کرکے وطن پر قربان ہوگئے۔ ناگ میں بسنے والے لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ناگ وہ سرزمین ہے جہاں عبدالخالق سردو جیسے کمانڈر نے سالوں سال کام کیا، پر افسوس آج بھی ناگ کے لوگ خواب غفلت میں ہیں، لیکن ہاں میں اس کو ناگ کا چے گویرا اس وجہ سے کہتا ہوں کہ آج ناگ جاگ چُکا ہے، آج ہر گھر، ہر مجلس میں شفقت کا نام لیا جاتا ہے۔ شفقت ناگ کو انقلاب سے آشنا کرنے والے ہیرو کا نام ہے۔

جب میں نے شہید سنگت شفقت مینگل عرف دیار سے پہلی بار قلات کے پہاڑوں میں ملاقات کی تو انہیں مسکراہٹ سے بھرے چہرے، قومی آزادی کے نظریے سے لیس اور ہاتھ میں بندوق لیے پہلی بار دیکھا۔ آپ نے قومی آزادی کے خیال کو لے کر عیش و عشرت کی زندگی کو خیرباد کردیا، وطن کے لیے قربان اور فنا ہونے کے لیے پختہ ایمان کے ساتھ بلوچ جنگ میں شامل ہوئے۔
شہید سنگت شفقت ایک درویش صفت، نڈر جنگجو، تعلیم یافتہ، انتہائی خوش مزاج اور حس مزاح سے بھرے انسان تھے۔ سنگت ایک جفاکش خودمختار سرمچار تھا، قومی آزادی کی سوچ و فکر میں مست ہو کر بھوک و پیاس، دھوپ، گرمی اور سردی برداشت کر رہا تھا۔ جوانی کو قربان کرکے آزادی کی راہ میں جان و مال حاضر کرکے چلا گیا۔ آپ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ آپ اپنے سرزمین کے حقیقی وارث ہیں۔ جب وطن نے آپ کو آواز دی تو آپ نے تمام شہیدوں کا بدلہ دل میں لے کر، اپنی زندگی کی خواہشات کو بھول کر، ماں باپ، بہن بھائیوں کے ارمانوں کو ترک کر کے ایک مجنون، مست و مرید اور ایک باغی بن کر سرزمین بلوچستان کے پہاڑوں کو اپنی عبادت گاہ بنایا تھا۔

جب میں اور سنگت دیار ایک ساتھ سفر پر تھے، سنگت زمین پرست بلوچ تھا۔ وہ اتنا زمین پرست تھا کہ جب سنگت پہاڑوں پر آیا، اس کے بعد اُس نے ایک دن بھی اپنے گھر یا گھر والوں کا ذکر نہیں کیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اُس کا گھر بولان اور قلات کے یہ پہاڑ ہوئے ہوں اور وہ برسوں سے یہاں پر پلا بڑھا ہو۔ پہاڑوں کو دیکھ کر اتنا زیادہ خوش ہوا جیسے کسی کو جنت ملی ہو۔ کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ شفقت نے پہاڑوں کو سجایا ہے اس طرح جیسے دولہن کو سجاتا ہے۔ ایسے درویش صفت بلوچ بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کی وطن سے مخلصی چلتن کے اونچے پہاڑوں سے اونچی تھی۔ وہ کہتا تھا، “میں سرزمین بلوچستان کے لیے خود کو تو فنا کر دوں گا، لیکن میری ایک خواہش ہے کہ یہ زمین مجھے اپنی کوکھ میں جگہ دے، مجھے اپنی باہوں میں جگہ دے اور میں وہاں وطن کی عشق میں تا قیامت سو جاؤں۔”

شفقت کہتا، “مجھے لگتا ہے کہ میں جنگ کے لیے پیدا ہوا ہوں اور یہ جنگ میرے بچپن کی خواہش رہی ہے۔ حالانکہ سنگتوں نے مجھے بہت وقت علاقے میں رہنے اور کام کرنے کے لیے روک رکھا تھا، لیکن میں بضد تھا، آج یہاں پہنچ چکا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے اچھا اور کوئی ہتھیار نہیں چلا سکتا۔ میں نے سالوں سال اپنے جسم پر کام کیا ہے تاکہ میں جنگ میں وہ سب کام کر سکوں جو ایک اچھا جنگجو کرتا ہے۔”

سنگت شفقت شہید سردو سے بےانتہا متاثر تھا۔ وہ اس بات پر ہر وقت ناز کرتا تھا کہ شہید سردو میرا پہلا اُستاد رہا ہے، مجھے جنگ سے محبت کا درس شہید سردو سے ملا ہے اور میں وہ کام کروں گا جو شہید سردو کرنے میں مشہور تھے۔ کہتا تھا، “میں دشمن کو باور کراؤں گا کہ سردو آج بھی زندہ ہے اور تم پر کاری ضرب لگا رہا ہے۔” وہ کہتا تھا، “میں اپنا ٹریننگ بہت پہلے کر چکا ہوں، بس اب جنگ کے میدان کا انتظار ہے۔”

آپ کو بےانتہا محبت اپنے وطن سے تھی، لیکن اپنے ساتھیوں سے بھی بہت محبت کرتے تھے۔ سنگت کا بلند حوصلہ اور وطن دوستی دیکھ کر میرا حوصلہ بلند اور پختہ ہوگیا۔ ان سخت حالات میں خوفناک پہاڑوں میں ایک عاصم اور طارق کریم بن کر اپنی سرزمین کی حفاظت کر رہا تھا۔ آپ کی باتوں سے آزادی کی مہک آتی تھی۔ ناگاہو کے پہاڑوں میں شہید مرید بن کر ہانل سے عشق کر رہا تھا۔ دشمن کے لیے بالاچ بن کر ان پر ٹوٹ رہا تھا۔ شفقت کی وطن سے مخلصی، ہمدردی اور بے باک محبت ہمیشہ وطن کی سرد ہواؤں میں محسوس کی جائے گی۔ آج ناگ کی سرزمین شفقت کی یاد میں سرسبز ہے، بے انتہا خوش ہے کہ میری گود میں سورہا ہے۔ یہ درخت، یہ فصلیں سر اونچا کر کہ کہتے ہیں کہ “شفقت ہمارے پاس ہے۔” آپ کی شہادت سے یہاں کی ہوائیں خوشبو دینے لگیں ہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔