میں نے ایک خواب دیکھا ۔ سلیمان بزدار ‏‎

398

میں نے ایک خواب دیکھا
‏‎تحریر ۔سلیمان بزدار
‏دی بلوچستان پوسٹ
‏‎آج پھر میں نے اپنے محبوبہ کو خواب میں دیکھا آج پھر وہ ہنس رہی تھی آج وہ مجھ سے بہت خوش تھی۔ آج وہ مجھے بار بار یہ جملہ کہہ رہی تھی کہ میں نہیں جانتی تھی کوئی اس قدر بھی کسی کو چاہ سکتا ہے۔ وہ مجھ سے کہہ رہی تھی کہ کیا تم مجھے اس قدر چاہتے ہو جس طرح وہ دیوانے اپنے محبوب کو چاہتے ہیں۔ میں نے جواب میں پوچھا کس قدر؟ کہا،اس قدر کہ جہاں چاہت کی ساری منزیلیں پار ہوجائیں جہاں محبت کی ساری داستان زیر ہوجائیں جہاں زندگی اور موت کا فرق ہی مٹ جائے جہاں روح اور جسم کا کوئی معنی باقی نہ رہے ۔ جہاں دوسرے کی شرط ہی نہ ہو بس ایک جان ایک روح ایک ہی منزل ہو ۔ بس صرف محبت ہی محبت ہو۔ وہ منزل کہ جہاں موت بھی لرزنے لگے فرشتے بھی کانپتے ہوں ۔ جہاں محبت کی ساری کہانیوں پہ پردہ پڑجائے۔ بس اسی جگہ پہ پہنچ کر صرف اور صرف محبوب کی تڑپ باقی رہ جاے۔ وہ مقام جہاں ایک دیوانہ اُس لمحہ کی انتظار میں ہو کہ کب کہاں اور کیسے اس دیوانے کو اپنے محبوب خود پہ قُربان ہونے کا موقع دے اور وہ پاگل، دیوانہ ،مستانہ اس مقام اور جگہ پہ پہنچ کر محبوب کو گلے لگا کر خود کو فنا ء ￴ کردے۔ ”فدا“ کردے اپنے سارے ارمانوں کو بس اس ایک ہی ارماں کے ساتھ کہ اے میرے محبوب تو سلامت رہے وہ دیوانہ فدا ہونے سے پہلے چند مخصوص الفاظ محبوب کی کُوک میں ادا کرکے خود ہمیشہ ہمیشہ کیلے فدا ہوجاتا ہے۔ وہ جاتے جاتے اتنا کہہ دیتا ہے کہ اے میرے محبوب ”رخصت اف اوارُن “

‏‎انہی چند الفاظ سے اس دیوانے کی حقیقی زندگی کا آغاز ہوتا ہے جہاں اسکی داستاں رقم ہوتی ہے ۔ جہاں وہ افسانہ نہیں بلکہ چشم دید کہانی بن کر دنیا کے سامنے آجاتا ہے ۔ جہاں اسکی ذات اسکے عشقی داستان کے ساتھ تاابد ہو کر ایک تاریخ بن جاتی ہے ۔ بس وہ دیوانہ پھر محبوب کی گود میں آبِ حیات پی کر ایک اضافی نام کے ساتھ ”فدائی“ بن کر ہمیشہ ہمیشہ کیلے اَمر ہو جاتا ہے پھر تاقیامت محبوب کی گلیوں میں بے خوف ہوکر گھومتا ہے ۔ بس ”فدائی“ بن کر کیا تم مجھے اس قدر چاہتے ہو؟ میں لاجواب ہوگیا! بس میں لاجواب ہوگیا۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں