میرا شام چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا: بشارالاسد کا مبینہ بیان

149

شام کے سابق صدر بشار الاسد کا اپنی حکومت کے خاتمے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد پہلا مبینہ بیان سامنے آگیا ہے۔

سقوط دمشق کے آٹھ دن بعد جاری ہونے والے اپنے پہلے بیان میں انھوں نے کہا ہے کہ ان کا کبھی بھی روس فرار ہونے کا ارادہ نہیں تھا۔

سابق شامی صدر بشار الاسد کا یہ بیان پیر کو شام کے صدارتی ٹیلیگرام چینل پر پوسٹ کیا گیا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ فی الحال اس چینل کو کون چلا رہا ہے۔

اس بیان میں ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی شام کا دارالحکومت باغیوں کے قبضے میں چلا گیا، وہ صوبہ لطاکیہ میں ایک روسی فوجی اڈے پر ’جنگی کارروائیوں کی نگرانی‘ کے لیے گئے تھے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ شامی فوجی اپنی پوزیشنیں چھوڑ چکے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’حمیمیم کے فضائی اڈے پر روسی فوجی اڈوں پر ڈرون حملوں کے بعد، روس نے انھیں ہوائی جہاز کے ذریعے ماسکو لے جانے کا فیصلہ کیا۔ عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہونے والے بیان میں شام کے سابق صدر نے مبینہ طور پر بتایا ہے کہ آٹھ دسمبر کو کیا ہوا تھا اور بظاہر روسی اڈے پر ان کا محاصرہ کیسے کیا گیا تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جب فوجی اڈہ چھوڑنے کا کوئی قابل عمل طریقہ موجود نہیں رہا تو ماسکو نے بیس کمانڈ سے درخواست کی کہ ان (بشار الاسد) کے فوری روس انخلا کا انتظام کیا جائے جو کہ آٹھ دسمبر کی شام کو ہوا تھا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’یہ انخلا سقوط دمشق کے ایک روز بعد تمام فوجی پوزیشنوں کے خاتمے اور اس کے نتیجے میں تمام باقی ریاستی اداروں کے مفلوج ہونے کے بعد ہوا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ان واقعات کے دوران کسی بھی موقع پر میں نے عہدہ چھوڑنے یا پناہ لینے پر غور نہیں کیا اور نہ ہی کسی فرد یا پارٹی کی طرف سے ایسی کوئی تجویز پیش کی گئی۔‘

ان کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’جب ریاست دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلی جائے اور معنی خیز کردار ادا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے، تو کسی عہدے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا، اور اس عہدے پر رہنا بے معنی ہو جاتا ہے۔‘

واضح رہے کہ شام میں باغیوں کی لڑائی کے دوران بشارالاسد کہیں دکھائی نہیں دیے تھے کیونکہ شام کے شہر اور صوبے 12 دنوں کے اندر اسلام پسند عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغیوں کے قبضے میں آگئے تھے۔

تاہم یہ قیاس آرائیاں عروج پر تھیں کہ وہ ملک سے فرار ہو گئے تھے کیونکہ ان کے وزیر اعظم بھی دمشق میں باغیوں کے حملے کے دوران ان سے رابطہ نہیں کر سکے تھے۔

نو دسمبر کو روسی میڈیا نے اعلان کیا تھا کہ بشارالاسد کو روس میں سیاسی پناہ دی گئی ہے، حالانکہ اس کی کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی۔‘