معرکہِ رستخیز قلؔوہ اور جنگ
تحریر: برز کوہی
دی بلوچستان پوسٹ
انسانی تہذیب و تاریخ کی وادی کو عقابی نظروں سے اگر علم کی چوٹی پر بیٹھ کر اور دل و دماغ کے گہرے سمندر میں پنہاں حقیقت سے روشناس ہو کر دیکھا جائے، تو ہم پر یہ رازِ ہزار پردہ پوش نکل کر آفتاب کی مانند عیاں ہوتی ہے کہ بقاء کی جنگ وہ واحد و یکتا جنگ ہے، جس نے حساسیت اور سنجیدگی کے طلسماتی کرامات کی طاقت کے ساتھ انسان کے شعور کی آبیاری کی ہے اور اُسے دریافت کے چمکتے ہیرے سے فیض یاب کی ہے۔ اس جنگِ پُرخار اور خون آشام میں انسان کو جس قوتِ اعلیٰ نے کامیابی کی اونچائیوں تک پہنچایا ہے، وہ خود کو اور اپنے لوگوں کو زندہ و پائندہ رکھنے کا فلسفہِ حیات ہے۔ انسان نے جنگلوں، بیابانوں، غاروں، برف پوش راہوں، موت کی وادیوں اور سمندر کے طوفان و گردابوں سے نکل کر خود کو ترقی کے میناروں کی روشنی سے بہرہ مند کیا اور اپنے شعور کو نوکدار خنجر کی مانند دشمن کیلئے تیار رکھا۔ بقاء کی جنگ میں فنا سے خود کو بچانے کی جستجوِ حیات میں انسان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اپنے موجودہ اور عطا کردہ ہستی و وجود کے شناخت سے انکار کرنا اور از خود اپنے فلسفیانہ تجسس اور عالمانہ نقطۂ نظر کے ساتھ اپنی شناخت بنانا تھا۔ اسی فلسفے پر عمل پیرا ہونے والے شہزادہ قلؔوہ قومی بقاء کی جنگ میں موجودہ حالتِ زار سے انکار کرتے ہوئے فلسفیانہ نقطۂ نظر اور حالاتِ حاضر کے متقضیات کے تحت عملی جدوجہد کو جدت و شدت کی چوٹیوں تک پہنچا رہے ہیں۔ ان کی جدوجہد اور شعوری پیمانے کو سمجھنے کیلئے ہمیں شعوری جدوجہد، جنگی تقاضات اور حکمت عملیوں کو دانشمندی سے سمجھنا چاہیے اور اُن کی پیروی زمینی حقائق کے تحت کرنی چاہیے۔
آج بلوچ قومی جنگ کی شدت و جدت کے خواب اور خمارِ عشقِ وطن کی آزادی کی تنوع استغراق میں جب ہم دیکھتے ہیں تو ہم پر ہر طرف دشمن کی لرزہ خیزیت و حواس باختگی کی آہ و فغاں کی کیفیت عیاں ہوتی ہے۔ کیونکہ دشمن کی اس غیر معمولی کیفیت و تناؤ کے عقب میں شہزادہ قلؔوہ کی مسکراہٹ میں آغا محمود جان کی بشاشت ، شاہی میری کی چنچل پن میں محرابی معراج، ہربوئی و مہلبی کی رقص میں تعائل ، اسکلکو کی سرو سرگم میں عزم رزم، جوہان و شاہ مردان کی تر و تازہ شازیبی لہو کی نکہت، ناگاہی کی عظمت و اعتزاز میں غفاری قہقہوں کی کروفر، مہارنگی غمخوار منگچر کی دامن میں سگاری و مجیدی لشکر کی خون آشام یزیدوں کے خلاف معرکہ آرائی میں بے شمار شہزادوں اور وطن زادوں کی لہو اور پسینوں کی آبیاری سے لیکر آج اسلمی دروشم میں شہزادہ قلوہ کی معرکہ خیز اور رقص دشمنان جنگی حکمت عملی و انتہائی بہادری اور برق رفتاری جھلکتی ہے، جو یہ ثابت کرچکی ہے کہ جنگ کو جنگ سمجھ کر بہترین کمانڈر فلسفیانہ جستجو اور کھوج میں منزلِ مقصور کیلئے راستے ہموار کر سکتے ہیں اور اپنے زیرِ قیادت ساتھیوں کو مادی ضروریات کی حرصِ ناروا اور طمعِ ضرر رساں سے ماورا کرکے آئیڈیاز کی خوبصورت عکس سے روشناس کر سکتے ہیں۔ کسی بھی مصنوعی یا عارضی تسکین و راحت کے موسم اور وقتی کامیابی کی غیر موثر طمانیت سے دامن بچانا اور اپنے عقابی نگاہوں کو مسلسل نئے معرکاتِ جنگ اور کاؤنٹر پالیسی کی جانب مرکوز کرنے کا تجسس و جستجو ہی وہ طلسماتی قوت ہے، جس نے شہزادہ قلوہؔ کو جنگ برائے جنگ اور فقط جنگ کے فلسفے سے روشناس کروایا ہے۔
شہزادہ قلوہ نے جب پُرخار راستوں پر قدم رکھا تو اُس نے سب کچھ وقف کرنے اور فقط قومی آزادی کے مقصد کو عظمت و اعتزاز کی حد تک فوقیت دینے کیلئے اپنے شعور کی زمین کو علم کی جستجو اور عمل کے کارگر آبِ حیات سے سیراب کیا۔ کیونکہ وہ اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ تاریکی نہ لغویات کو سجانے سے ختم ہوتی ہے، نہ ہی مصنوعی دیپ کی روشنی سامانِ تسکیں مہیا کر سکتی ہے، بلکہ تاریکی کو سب سے پہلے اپنے اندر آگ کی چنگاری اور شعلوں کی فراوانی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ روایتی طرزِ امور سے آنے والی نسلوں کیلئے روشنی کے میناروں کو منور نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس سفر میں “کیوں اور کیسے” کا دامن تھام کر عمل کے نئے دروازوں کو وا کرنے سے کیا جا سکتا ہے۔ اُس نے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کی اس قول کو اپنی علم و شعور کی شدت کے ساتھ اپنایا کہ ”میں بنیادی طور پر ایک پُرامید انسان ہوں۔ یہ خصوصیت قدرتی ہے یا پیدائشی، اس حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن اس پُرامیدی کا ایک سرا سورج سے ملتا ہے جو صرف روشن ہونا جانتا ہے۔ میری زندگی میں بے شمار تاریک لمحات آئے جب مجھے میرے یقین کے ساتھ آزمایا گیا، لیکن میں نے خود کو مایوسی سے دوچار نہیں ہونے دیا، میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ یا تو اس راستے میں موت ہے یا پھر جیت‘‘
اسی طرح، جب آپ نے جنگ کو فن و حکمت کے ساتھ فلسفہِ حیات سمجھا اور اُسے عملاً اختیار بھی کیا، تو آپ نے جنگ کو روایتی بنیادوں پر نہیں بلکہ علم فلسفہ و فلسفیانہ جستجو، فلسفہ زاویہ نظر اور وقت و حالات کے تقاضات سے پرکھنے اور جاننے کی کوشش کی۔ اسی لیے آپ میں مسلسل چلنے اور سیکھنے اور سکھانے کی سکت اب بھی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ آپ تاریخ کے عظیم ترین کرداروں اور قابلِ تقلید ذہنوں کے افکار و خیالات اور حکمت عملیوں سے روشناس ہونا چاہتے ہو۔ اسی لیے پھر جنگ ہو یا امن ہو، اپنی زندگی میں ہر لمحے ، ہر موقع، بلکہ تمام معمولی اور غیر معمولی مشکلات و مسائل، چیلنجز کے دوران گہرائی سے فلسفیانہ غور و فکر کرنے کا سنہرہ موقع ضائع کبھی نہیں کرتے ہو اور ہمیشہ کوتاہ فہمی ، سطحی پن اور الجھنوں سے بالاتر ہو کر اپنی سوچ و اپروچ کو نئے نقطہ نظروں اور نئے زاویوں سے وسیع کرکے کچھ نیا کرنے اور نیا بننے کے لیے وقت و حالات کی ترقی میں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہو۔ کیونکہ آپ اس امر سے واقف ہو کہ جنگجو بننے کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی بننا ضروری ہے، کیونکہ فتح اُسی کی ہوتی ہے جو اپنے زاویہ نظر، افکار اور خیالات کو تبدیل کرتا ہے اور پھر عمل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ آپ کی محنت و کاوش اسی نقطے کی عملی تشریح ہے، جسے تاریخ ساز فلسطینی جنگجو لیلیٰ خالد اپنی کتاب My People Shall Live میں کچھ یوں بیاں کرتی ہے کہ “میں جانتی تھی کہ مجھے ایک کردار نبھانا ہے؛ مجھے احساس ہو چکا تھا کہ ظالم و محکوم، استحصال کرنے والے اور استحصال زدہ لوگوں کے درمیان ہونے والی ناگزیر لڑائی میں مجھے ایک جنگجو کی حیثیت سے ایک تاریخی مشن سرانجام دینا ہے۔ اسی لیے میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ خود کو آزاد کرنے کیلئے ایک انقلابی بنوں گی۔”
آپریشن درّہِ بولان کے بعد آپ نے کم وقت میں جس برق رفتاری اور فسوں نگاہی کے ساتھ قلات محاذ کا باریک بینی سے معائنہ کیا اور اپنے قائدانہ حکمت سے جنگی حکمت عملیوں کو تشکیل دیا، یہ آپ کی بصیرت اور دانشمندی کے عکس کو عیاں کرتی ہے۔ جنگ کو جنگ کے آئینے میں دیکھنے اور سمجھنے والی اعلیٰ بصیرت ہی ہے جس نے آپ کو یہ ناقابلِ تسخیر قوت عطا فرمائی ہے کہ آپ ماضی کے متعین کردہ روایتی طرزِ جنگ اور فرسودہ حکمت عملیوں سے اجتناب کریں اور اپنی قوتِ بازو کے تحت جنگ کو حالات کے فریم کو پہلے مکمل طور پر سمجھ کر اُسے کامیابی سے ہمکنار کریں۔ آپ عملی طور پر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جنگ و تشدد کو شعوری بنیادوں پر سمجھنے سے ہی عمل کے دروازے کھلتے ہیں جس سے منزل کے نشاں عیاں ہوتے ہیں۔ اسی نقطے کو فرانز فینن اپنی کتاب Wretched of the Earth میں کچھ یوں بیاں کرتے ہیں کہ “ کالونائزڈ یا استعمار زدہ شخص کیلئے تشدد ایک مکمل عمل کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس امر میں ایک جنگجو وہی ہے جو عمل کرتا ہے، یعنی نوآبادکار کی موت کا اعلان کرتا ہے۔ نوآبادکاروں کے موت کی ذمہ داری لینے کا عمل اُن گروہوں کو اس امر کا حوصلہ بخشتا ہے، جو محروم کیے جا چکے ہیں، کہ وہ لوگ ایک بار پھر واپس اپنی شناخت پا لیں۔ تشدد کا عمل ہی ہے جو ایک جنگجو کو ہمت و حوصلہ دیتی ہے اور اُسے حتمی منزل کی نشانیوں سے بہرہ مند کرتی ہے۔”
دوسری جانب، آج بلوچ قومی تحریک میں شہزادہ قلؔوہ سمیت دیگر باشعور جنگجوؤں کی انتھک محنت اور قربانیوں سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ایک طاقتور دشمن کے خلاف نبردآزما ہونے کیلئے ہمیں سب کچھ وقف کرنا چاہیے۔ تاوقتیکہ ہم سب کچھ داؤ پر لگانے کا حوصلہ نہیں رکھتے تو ہم اُن نتائج کا حصول کبھی بھی ممکن نہیں بناتے، جن کی توقع میں غم زدہ مائیں دعاؤں کے موتیاں پروتی ہیں؛ بہنیں آنکھوں میں آنسو اور دل میں یاس کا دیپ جلاتی ہیں اور جوان بیٹوں کو کندھا دینے والے باپ من ہی من اس سوچ کے تحت مطمئن ہوتے ہیں کہ جنگ امن کا داعی بن کر خوشحالی اور آزادی کا آفتاب طلوع کروائے گی۔ جنگ سب کچھ تیاگ دینے اور تمام چیزوں کو داؤ پر لگانے سے ہی نئی زندگی کے سحر تک پہنچاتی ہے۔ اسی پہلو کو پرتگالی نوآبادیات کے خلاف گنی بساؤ کو قومی آزادی دلانے کیلئے PAIGC کی رہنمائی کرنے والے عظیم رہنما املیکار لوپس کیبرال 1969 میں پارٹی کی جانب سے منعقد کردہ سیمنار میں “سیاسی مزاحمت” کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے افسانوی انداز میں کچھ یوں بیاں کرتے ہیں کہ “ وہ نئے بیج جو ایک نئی زندگی کے ضامن ہیں، ہمیں اُن بیجوں کو اپنے باطن میں اُگانے ہیں۔ اس دوران طوفان آسکتے ہیں، قحط پڑ سکتی ہے اور پانی کی عدم دستیابی کے باعث سارے بیج زوال کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جب ہم ان بیجوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، تو اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے لیے کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔۔۔ عوامی مزاحمت کیلئے ایک ایسی ہی ہمت و حوصلہ درکار ہوتی ہے جو ایک نئی زندگی کی تشکیل کیلئے ہمیں خود کو مکمل طور پر وقف کرنے کی قوت عطا کرے۔”
اسی طرح، آج جنگ کی شدت اور جدت کو اسی تسلسل سے جاری رکھنے کیلئے ہمیں اپنی تمام تر کاوشوں اور کوششوں کو اپنے ہی دست و بازو کی قوت پر مرکوز کرنی چاہیے۔ کیونکہ دوسروں پر انحصار کرنے کا عمل ایسا ہے، جیسے ایک معتبر شخص سونے کا کٹورا لیکر بھیک مانگے؛ یا ایک آئینہ دار شخص اپنے چہرے سے دھول و غبار صاف کرنے کیلئے دوسروں سے شیشہِ عکس کا طلب کر بیٹھے۔ آج علمی و شعوری نقطہ نگاہ رکھنے والے نوجوان جب تشدد برائے تشدد اور جنگ کو جنگ کے ہی زاویے سے پرکھنے اور عمل کا ادراک رکھنے کی طاقت سے بہرہ مند ہیں، تو اس مؤثر حالت میں بیرونی Intervention کی توقع کرنا خود پر بداعتمادی اور National confidence سے روگردانی کرنے کے مترادف ہوگا۔ نوآبادیات کے خلاف جنگوں کی تاریخ از خود اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ قومی ریاستوں کی آزاد حیثیت کو reinstate کرنے کیلئے خود پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اسی امر کے شواہد ہمیں ویتنام کی آزادی کی جنگ میں ملتی ہے جس کا ذکر جنرل وو نگوئن گیاپ اپنی کتاب People’s War, People’s Army میں کچھ یوں کرتے ہیں کہ جب عالمی حالات ہماری حمایت میں بدل گئے تو ہمارے لوگوں اور پارٹی میں ایک ذہنیت ابھرنے لگی کہ وہ نفسیاتی طور پر بیرونی امداد کا انتظار کرنے لگے اور اُس پر انحصار کرنے لگے۔ نظریاتی جنگ میں یہ ایک انتہائی نقصاندہ ذہنیت ہے۔ اسی لیے ہم نے اس طویل جنگ کو نظریاتی طور پر جاری رکھنے کیلئے اپنی پارٹی اور لوگوں پر خاص توجہ دی اور اُنہیں آگاہی دی کہ اس جنگ میں ہمیں خود پر انحصار(Self-reliance) کرنی چاہیے۔ بیشک عالمی امداد اور حمایت اہمیت رکھتی ہے، مگر کامیابی اور آزادی کیلئے ہم صرف اپنے جدوجہد پر انحصار کرینگے۔
مزید برآں، آج بلوچ قومی تحریک میں جنگ کو مدافعانہ تشدد کے تحت بلا جھجھک وسعت دینے اور دشمن کے پروپگینڈے کی کالی رنگوں سے اپنے سوچ و اپروچ کو داغ دار ہونے سے بچانے کیلئے ہمیں تاریخ کے پنوں نوآبادیاتی نظام کے خلاف قومی آزادی کی تحریکوں کو عالمانہ نقطۂ نگاہ سے پرکھنا اور قابلِ تقلید اسباق کو زمینی حقائق کے تحت موازنہ کرنا چاہیے۔ تاریخ اس امر کی شواہد دیتی ہے کہ جب بھی مظلوم اقوام نے مدافعانہ جنگ کو متشدد جنگ کے تحت فروغ دینے کی کوشش کی ہے، یا دشمن کے خلاف انتہائی چال بازی اور عدم رواداری سے معرکات کو جاری کی ہے، تو دشمن کی جانب سے اُن تحریکوں کے خلاف “غیر انسانی”، “انتہا پسندی” اور “سافٹ ٹارگٹس” جیسے اصطلاحات کا استعمال عمل میں لایا گیا۔ مثلاً قبرص میں قومی آزادی کیلئے برطانوی نوآبادکاری کے خلاف جب EOKA نامی تنظیم نے جنرل جارج گریواس (ڈیگھنیس) کی سربراہی میں برطانوی آبادکاروں کے خلاف متشدد طرزِ جنگ کا آغاز کیا، تو برطانیہ کی جانب سے اسے کاؤنٹر کرنے کیلئے من گھڑت مفروضوں اور کینہ بخش تشہیر کا عمل شروع ہوا۔ لیکن دوسری جانب جنرل گریواس اپنے موقف پہ ڈٹے رہے، اور اُنہوں نے اس صورتحال کو اپنی یاداشتوں پہ مبنی کتاب Memoirs of Grivas میں کچھ یوں بیاں کیا کہ” پوری جنگ بے رحم ہوتی ہے اور ایک برتر قوت سے جیتنے کا ایک ہی طریقہ دھوکا دہی اور چال بازی پہ مبنی ہوتا ہے۔ آپ چھوٹے ہتھیاروں اور رائفلرز کو استعمال میں لانے کی نسبت آگے سے یا عقب سے وار کرنے کے درمیاں فرق کرنے کی قیمت نہیں چکا سکتے۔ برطانوی شاید مجھے اتنا ہی تنقید کا نشانہ بناتے، جتنا وہ قبرص میں جنگ چھیڑنے کو پسند کرتے ہیں، لیکن مجھ پر یہ واجب نہ تھا کہ میں یہ سب کچھ کرنے کیلئے اُن سے اجازت لوں۔”
ایک طرف شہزادہ قلوہ جیسے جنگجو ہیں جن کے پختہ ذہن نئے طریقہ کار اور حکمت عملیوں کی جستجو میں مرکوزِ عمل ہیں اور جو مندرجہ بالا پہلوؤں سے واقف ہو کر مسلسل عمل کی جانب گامزن ہیں، تو دوسری طرف ہم میں کچھ لوگ جنگ کے دوران شعوری جدوجہد اور عقلی حکمت عملیوں کے بحث میں اُلجھ کر دشمن کی دیئے ہوئے ڈسکورس کو قبول کرتے ہوئے اپنی تحریک کا معائنہ کر رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھ کر روایتی معنوں میں ایسے لغویات کی پرچار کرتے ہیں کہ جنگ کو نئے پیمانے سے ہمکنار کرنے والے اور نئے زاویے سے دیکھنے والے دراصل شعور کے میدان سے ماورا ہیں۔ یہ جنگجو بیرونی کیفیت، لغویات، عقیدت اور Romanticism کی وجہ سے داخلی طور اپنے عقل کو شعور کے ترازو میں ناپنے کے بجائے اندھا دھند طور پر متشدد عمل کو فوقیت دے رہے ہیں۔ لیکن حقیقی فلسفۂ حیات اس نقطے سے دُور دانت دکھا کر ہم پر ہنس رہی ہے کہ ہم اس نقطے کو کیوں سمجھنے سے عاری ہیں کہ شعور کا دروازہ داخلی طور پر تب کھلتا ہے، جب ہم اپنے موجودہ شناخت سے روگردانی کرتے ہیں اور ایک نئے سرے سے علم و عمل کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ بقولِ فلسفی جارج برکلے، “انسانی شعور اپنے طور پر کوئی ‘شے’ نہیں بلکہ اس کی انہی شرائط پر تعریف کی جاسکتی ہے کہ یہ کیا دیکھتا ہے اور کس بارے سوچتا ہے۔” فرد جب داخلی طور پر شعور کی روشنی سے منور ہوتا ہے تو وہ اپنے اجتماع کی ثقافت میں پنہاں قومی و اجتماعی شعور سے روشناس ہو کر عمل کا نکہت دار دامن تھامتا ہے۔
طاقت ایک ڈسکورس بن کر ہمارے شعور کو مقید کرتی ہے اور ہمیں ایک ایسے زاویے سے روشناس کرتی ہے جو ہماری اجتماعی شعور کی دین نہیں ہوتی، بلکہ مصنوعی ہوتی ہے۔ یہ ڈسکورس ہماری ایسی شناخت تشکیل دیتی ہے جو دراصل ہمارا حقیقی شناخت نہیں ہوتا، نہ ہی ہماری ہستی کا صحیح و سالم ترجمان ہوتا ہے۔
اسی پہلو کو فرانسیسی فلسفی مشل فوکو اور پوسٹ کالونیل نظریہ دان فرانز فینن کے دو نقطوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فوکو کہتے ہیں کہ “شاید آج کل ہمارا حدف یہ دریافت کرنا نہیں ہے کہ ہم کیا ہیں، بلکہ ہمارا ہدف موجودہ حالت میں اپنے شناخت سے انکار کرنا ہے۔” یعنی اپنے موجودہ شناخت کے متعلق باشعور ہونا اصل ہدف نہیں ہے، بلکہ اُس سے انکار کرنا ہی انقلابی تبدیلی اور شعوری جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ کیونکہ اپنے موجودہ وجود سے انکار کرنے کا عمل ہمیں جستجو کی طرف لے جاتی ہے اور ہمارے سامنے علم کے نئے زاویے اور عمل کے نئے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ پھر ایک شخص جب اپنے موجودہ غلامانہ وجود و شناخت سے انکار کرنا سیکھتا ہے، تو وہی شخص اجتماعی و قومی ثقافت کے آئینے میں قومی شعور سے مستفید ہوتا ہے۔ کیونکہ بقولِ فینن، “اگر ثقافت قومی شعور کا اظہار ہے تو اس معاملے میں میں کسی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ کہہ سکتا ہوں کہ قومی شعور ثقافت کا اعلیٰ ترین قسم ہے۔” شہزادہ قلؔوہ جیسے بلوچ جنگجو شعوری طور پر اپنے قومی ثقافت میں بقاء کی جنگ، بہادری، شجاعت اور نوآبادیاتی نظام مخالف جدوجہد جیسے عوامل میں لپٹی قومی شعوری سے سیراب ہی اس لیے ہیں، کیونکہ وہ انفرادی و قومی شعور کو متقضیاتِ وقت اور جنگی تقاضات کیلئے اپنے موجودہ شناخت سے داخلی طور پر انکار کرنے کی مسافت سے گُزر چکے ہیں اور مسلسل جستجو کے سفر میں ہیں۔
اسی طرح، نوآبادیاتی نظام میں ایک کالونائزڈ شخص کی اپنے حقیقی وجود اور شناخت کے متعلق آگاہی اور شعور تب ہی اُجاگر ہوتی ہے، جب وہ سمجھ جاتا ہے کہ اُس کی انفرادی زندگی بھی نوآبادیاتی نظام میں اجتماعی زوال کی وجہ سے اپنی اصلیت سے ماورا ہو چکی ہے۔ جب وہ فقط موت کے آسیب سے ہمکنار ہو، تو وہ اجتماعی شعور کے دروازے تک پہنچ جاتا ہے اور وہیں اپنی بقاء کی راہیں تلاشنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی ذات کی موجودہ شناخت کو رد کرنا وہ پہلا شعوری فیصلہ ہوتا ہے، جو ایک مظلوم شخص کو سب کچھ تیاگ دینے اور خود کو مکمل طور پر اجتماعی بقاء کی جنگ میں وقف کرنے کیلئے آمادہ کرتا ہے۔ مشہور فرانسیسی مفکر اور فلاسفر سارتر اس پہلو کو البرٹ میمی کی کتاب The Colonizer and The Colonized کے تعارف میں کچھ یوں بیاں کرتے ہیں کہ “ نوآبادیات استعمار زدہ یا مظلوم کے اندر محبِ وطنی کو جنم دیتی ہے۔ جب جابر نظام کی جانب سے اُس کے ساتھ جانور جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے؛ جب اُسے تمام حقوق سے محروم کیا جاتا ہے اور حتیٰ کہ اُس سے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے، تو اُس کی حالت دن بہ دن بدتر ہوتی جاتی ہے۔ اور جب لوگوں کے پاس مرنے کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں بچتا؛ جب وہ اپنے جابروں سے فقط مایوسی کا تحفہ وصول کرتے ہیں، تو اُن کے پاس کھونے کیلئے کُچھ نہیں بچتا۔ اسی لیے اُن لوگوں کی بدقسمتی اُن کا ہمت بن جاتی ہے؛ وہ نوآبادیات کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔”
نوآبادیاتی نظام میں ایک شخص کی آزادی اور انصاف پہ مبنی زندگی بھی اُسی مقصد پہ منتج ہوتی ہے، جس کیلئے اجتماعی جنگ کا آغاز کیا جاتا ہے۔ مقصد کے بغیر وہ نہ صرف جینے کے حق سے محروم ہوتا ہے، بلکہ وہ اپنے خیالات و نظریات کی آخری حد تک پہنچنے سے بھی ماورا ہوتا ہے۔ اُس سے افکار چھین لیے جاتے ہیں اور وہ خلاِ بدنما میں فقط موت کا منتظر ہوتا ہے؛ ایک وحشت ناک موت کا۔ اس حالتِ راز میں اُس کے پاس خود کو زندہ رکھنے اور ذہنی آزادی کیلئے قومی مقصد سے وابستہ ہونا پڑتا ہے۔ یہ ذہنی آزادی کا تسکین اور مقصد کی عظمت ہی ہے جس نے فرانز فینن کو آخری ایام میں اپنے بھائی جوبی فینن کو میری لینڈ کے ایک ہسپتال کے بیڈ پر ایک خط میں یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ “ جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ موت ہمیشہ ہمارے سر پہ منڈلاتا پھرتا ہے اور مدعا یہ جاننا نہیں ہے کہ ہم فرار ہو سکتے ہیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم اُن نظریات کی فراوانی حاصل کر چکے ہیں جنہیں ہم اپنا بنا چکے ہیں۔ اگر ہم پہلے صف پہ مقصد کے غلام نہیں ہیں؛ لوگوں، انصاف اور آزادی کے مقصد کے غلام نہیں ہیں؛ تو ہماری اس زمین پہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔”
پس، آج بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں ہمارے شہزادے قلؔوہ سمیت بیشمار نوجوان مندرجہ بالا عوامل اور پہلوؤں سے واقفیت رکھتے ہیں، اور اس امر کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ جنگ کے اپنے پیمانے، اپنے اصول اور اپنے تقاضے ہوتے ہیں؛ وقت کے ساتھ ساتھ اس ڈگر پر چلنے والے جنگجو اپنے روشن فکری پہ مبنی شعور سے چیزوں کو از سرِ نو Recreate کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ کیونکہ جنگ میں اگر ہتھیار بھلے ہی بہ کثرت موجود ہوں، ایک جنگجو تب تک مؤثر حکمت عملی سے دشمن پر کاری ضرب نہیں لگا سکتا، جب تک وہ عقابی نگاہ نہ رکھے، یا جب تک وہ شعوری بنیادوں پر موجودہ resources کو شاطرانہ طرزِ عمل سے استعمال نہ کرے۔ کیونکہ بقولِ املیکار کیبرال، “ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک جنگجو کی بندوق اُس کے شعور کا تعین نہیں کرتی، بلکہ اُس کا شعور بندوق کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ بندوق کی اہمیت اُس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک وہ ایک باشعور جنگجو کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ بندوق کی افادیت اُس وقت دوبالا ہوتی ہے جب وہ اُس عالم و فاضل یا باشعور شخص کے ہاتھوں میں ہو جو ایک شفاف مقصد کی پیروی کرتا ہو۔”
اور یوں، ہمارا قلؔوہ، پہاڑوں کے جگر پر چلنے والی ہوا کی طرح آزاد اور دریاؤں کی روانی کی طرح مسلسل ہے، اپنی جدوجہد کے ذریعے ایک جیتا جاگتا استعارہ بن گیا ہے۔ اس کی بہادری ایک ایسے درخت کی مانند ہے جو آندھیوں میں بھی اپنی جڑیں مضبوط رکھتا ہے، اور اس کا شعور اُس مشعل کی طرح ہے جو تاریک راتوں میں بھٹکے ہوئے قافلوں کو راستہ دکھاتی ہے۔
وہ کمانڈر، جو گولیوں کی گونج اور بارود کی بو کے درمیان بھی اپنی آنکھوں میں امن کا خواب سجائے رکھتا ہے، آج بھی اپنے ساتھیوں کے لیے امید کا چراغ ہے۔ اس کے ہر فیصلے میں وہ حکمت ہے جو صدیوں کی محرومیوں نے اسے سکھائی ہے، اور اس کی ہر جیت میں وہ وقار ہے جو صرف اپنے حق کے لیے لڑنے والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ دشمن کے لیے وہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرتے کرتے کئی نسلیں ختم ہو سکتی ہیں، اور اپنے لوگوں کے لیے وہ ایک ایسا وعدہ ہے جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ شخص کسی پہاڑی عقاب کی طرح بلند اڑان رکھتا ہے، جسے نہ خوف روک سکتا ہے اور نہ لالچ۔ اس کے قدم زمین پر ہیں، لیکن نظریں آسمان کی بلندیوں پر۔ اس کی شخصیت میں میرِ کارواں کی بصیرت بھی ہے اور سپاہی کی جرات بھی۔ وہ اپنے لوگوں کے دکھوں کا گواہ ہے، اور ان کے خوابوں کا محافظ بھی۔
آج وہ زندہ ہے، انہی پہاڑوں میں، جہاں ہر پتھر اس کے عزم کی گواہی دیتا ہے۔ اس کے قہقہے میں بجلی کی گرج ہے اور اس کی خاموشی میں سمندر کی گہرائی۔ وہ زندہ ہے، اپنے ساتھیوں کے دلوں میں، اپنے دشمنوں کے خوف میں، اور ان داستانوں میں جو وادیوں کے چشمے سرگوشیوں میں سناتے ہیں۔ اس کی زندگی، جدوجہد کی وہ زندہ تصویر ہے جو دکھاتی ہے کہ بہادری محض میدانِ جنگ میں جیتنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے مقصد کے لیے جینے کا نام ہے۔ وہ کمانڈر، جو پہاڑوں کی چٹانوں جیسا مضبوط اور آزادی کے سورج جیسا روشن ہے، وقت کے سینے پر لکھا ہوا وہ سچ ہے جسے کوئی مٹا نہیں سکتا۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں