بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنی جاری کردہ بیان میں کہا کہ شہیدا پٹ فیڈر نے اپنی حقوق کی دفاع میں قابض جاگیرداروں و ریاستی پالن کار سرداروں کے سامنے بہادری، اور بلند حوصلوں کے باعث مزاحمت کی نئ تاریخ رقم کردی اور ہمیں بطورِ محکوم قوم یہ حوصلہ دیا کہ مادرِ وطن کی دفاع میں غیر مصالحت جدوجہد ہی نجات کا واحد رستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1972 میں پیش ہونے والی برائے نام اصلاح بلوچستان پٹ فیڈر زرعی اصلاحات ریگولیشن کے اعلان کے بعد 1975 میں مقامی لوگوں کو زمین الاٹ ہوئے جنہیں ہڑپنے کیلئے جاگیردار و سردار سرتوڑ کوشش میں مگن تھے، جنرل ضیاء کے دور میں مقامی جاگیردار آمر کے ساتھ یکدست ہوئے اور مختلف انتظامی ہربوں سے مقامی لوگوں کے زمینوں کو قبضہ کرنے کی مسلسل جتن کرتے رہے، بیشتر لوگوں نے دباؤ میں الاٹ شدہ زمینیں چھوڑ کر نقل مکانی کرنے پہ مجبور ہوئے مگر ہر جگہ کچھ کسان ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ مسلسل دباؤ کے باوجود ناکامی کی صورت میں جمالی جاگیرداروں نے مسلح لشکر کے زریعے گاؤں کا محاصرہ کیا، پانی کے تالاب بھی مسلح افراد کے قبضے میں رہے، جس کے باعث مرد، عورتیں، بچے، بھوڑے علاقے میں محصور ہوگئے کچھ کسان قریبی گاؤں کے کسانوں کے پاس گئے اور انہیں قبضہ گیروں کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کیا اور مختلف قبائل کے لوگ اسلحہ لیکر میدان میں اترے، فائرنگ کے تبادلے میں رحمت اللہ لہڑی، عبدالحق لہڑی، زرک جان لہڑی، عبداللہ لہڑی اور عبدالکریم رخشانزئ طبقاتی جدوجہد کے راستے میں شہید ہوئے
ترجمان نے مزید کہا کہ شہداء پٹ فیڈر کی قربانی ہمیں یہ باور کراتی ہیں کہ حقِ حاکمیت، انسانی وقار، وطن اور شناخت بیش بہا قربانیوں کی مانگ کرتی ہیں، خون مانگتی ہیں تاکہ وطنِ عزیز میں اجتماعیت پہ مبنی سیاست، معیشت اور ثقافت میں مزاحمت کی جھلک قائم رہے تو ہماری سماجی ساخت کی ساکھ قائم رہے، وجود قائم رہے
ترجمان نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شہدائے بلوچستان اور بالخصوص شہدائے پٹ فیڈر کو سرخ سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے فطری بلوچ سماج کی دفاع میں انقلابی جدوجہد کا الم بلند کیا اور شہادت کے عزیم منسب پہ براجمان ہوٸے۔ بی ایس او شہداء کی لازوال فکری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے عظیم مقصد کی تکمیل تک برسرِ پیکار رہے گی۔