شمعِ طالب و خالد رنگ و خوشبوِ بہار
تحریر: سنگت کوہی
دی بلوچستان پوسٹ
وہ شام یوں لگتا ہے کہ اب مکمل میرے وجود میں پیوست ہوگئی ہے۔ اس لمحے کا ہر منظر اب میرے وجود میں اور خوبصورت ہوتا جا رہا ہے۔ اور وہ ہمت و حوصلوں سے بھرے ہوئے آنکھیں اب بھی مجھ میں نظر رکھی ہوئی ہیں۔ 2022 میں جب میں بولان کے مہرِ مادر جیسی پہاڑوں میں داخل ہوا، تو بہت سے ساتھی دیکھے، لیکن ایک دن شام کے وقت میں نے دیکھا کہ دو ساتھی آرہے ہیں: ایک نوجوان اور ایک سفید ریش آدمی۔ یہ کیمپ میں داخل ہوئے تو میں نے ان کے ہاتھ پکڑ کر بیٹھانے کی کوشش کی، تو مجھے کہا کہ “سنگت، میں خود بیٹھ جاؤں گا، میں ابھی تک جوان ہوں۔” میں بولا، “جی چاچا، آپ کو تو سلام ہے، اس عمر میں آپ اپنا فرض ادا کرتے ہو۔”
پھر میں نے پوچھا، “آپ کی طبیعت کیسی ہے؟” بابا نے کہا، “جی سنگت، تھوڑا بخار ہے۔” میں نے کہا، “ابھی تمہارا علاج کروں گا۔” ایک سنگت نے چاچا کو دوائی دی اور چاچا آرام کے لیے لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد چاچا اٹھ گئے اور مجھے آواز دی کہ “سنگت، میرے پاس آؤ۔” میں جاکر بیٹھا اور پوچھا، “کیسے ہو؟ ساتھی کیسے ہیں اور گوریلے کیسے ہیں؟” میں نے بولا، “سب ٹھیک ہے۔” پھر میں نے کہا، “تم اس عمر میں سفر کرتے ہو، ریسٹ کیوں نہیں کرتے؟” انہوں نے کہا، “بیٹا، ہمارے لیے ریسٹ کرنا شرم کی بات ہے۔”
پھر میں نے پوچھا، “چاچا، آپ کے بیٹے ہیں؟” چاچا نے جواب دیا، “جی ہاں سنگت، میرے بیٹے ہیں۔” میں نے پوچھا، “آپ کے بیٹے بھی جنگ میں شامل ہیں؟” چاچا ہنستے ہوئے کہا، “میں کچھ نہیں بتاؤں گا، مگر میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔” پھر انہوں نے مزید کہا، “تنظیم نے ہمیں ایک ڈسپلین کی پابندی میں رکھا ہے۔ میرے بیٹے بی ایل اے میں ہیں یا نہیں، مگر میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔” پھر چاچا کے چہرے پر ایک غمگین نظر آئی اور وہ بولے، “یہ میری خواہش ہے کہ اگر بیماری کی وجہ سے میں چارپائی پر ہوں، تب بھی ساتھی مجھے جنگ میں لے جائیں۔ اور میں ایک بار پاکستانی فوج سے آمنے سامنے ہوں تو میں اپنی ہر شہید کا بدلہ لوں گا اور ماؤں بہنوں کے آنسو کا حساب لوں گا۔”
یہ سب سنتے ہوئے، مجھے ایسا لگا کہ چاچا کی روح بات کر رہی ہے، جیسے وہ اپنی زندگی کے تجربات کو ہمارے ساتھ شیئر کر رہے ہوں۔ پھر چاچا نے کہا، “ہماری آنے والی نسلوں کو یہ پتہ چلنا چاہیے کہ ایک بوڑھا اور بیمار آدمی بھی اپنے بلوچ قوم اور آزادی کی جنگ میں اپنا فرض ادا کرتا ہے۔”
اس کے بعد، ہم دیر تک چاچا سے مختلف باتوں پر گفتگو کرتے رہے۔ پھر کھانا تیار ہوا تو چاچا نے کہا، “ایک کپ چائے بنا دو اور ایک روٹی مجھے دو۔” میں نے کہا، “سالن ہے؟” تو انہوں نے جواب دیا، “میرا معدہ خراب ہے، ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔ میں مصالحہ دار سالن نہیں کھاؤں گا، بس چاول دے دو۔” میں نے چاول تیار کر کے ان کے سامنے رکھ دیے۔ چاچا نے کہا، “تم نے کیوں تکلیف کی؟” میں نے جواب دیا، “چاچا، تم اس عمر میں ہمارے ساتھ ہو، ہم تمہارے ساتھی نہیں بلکہ بیٹے ہیں۔” تو چاچا ہنسے اور کہا، “تم لوگ واقعی میرے ساتھی نہیں، بلکہ میرے بیٹے ہو، مگر تمہارا کام دشمن کے خلاف جنگ کرنا ہے۔”
کچھ دنوں بعد، چاچا سفر پر نکل گئے۔ ایک دن میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گشت پر نکلا۔ راستے میں، میں نے چاچا کو آواز دیتے ہوئے سنا۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو چاچا نے کہا، “میرے پاس آؤ، رات یہاں گزارو۔” ہم نے کہا، “جی چاچا، ہم یہاں رات گزاریں گے۔” اگلی صبح ہم نے کہا، “چاچا، ہم گشت پر جا رہے ہیں۔” چاچا نے کہا، “میں بھی آؤں گا۔” ہم نے کہا، “چاچا، آپ ریسٹ کرو، ہم واپس آئیں گے تو آپ کو ساتھ لے جائیں گے۔” چاچا نے کہا، “بس ٹھیک ہے۔” ہم نے رخصت لی اور دن بھر سفر کیا۔ شام کو جب ہم ایک جگہ ریسٹ کر رہے تھے، تو پانچ بجے کے قریب ہیلی کاپٹروں کی آواز آئی۔ ہم پہاڑوں کے اوپر بیٹھے تھے اور سات ہیلی کاپٹر اور تین ڈرون ہمارے اردگرد تھے، جنہوں نے چاچا کے کیمپ کی طرف شیلنگ کرنا شروع کر دی۔ ہم نے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر کسی سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
کچھ گھنٹوں بعد، ہیلی کاپٹر واپس چلے گئے، لیکن ڈرون ابھی تک موجود تھے۔ وہ ہر روز آ کر شیلنگ کرتے اور واپس چلے جاتے۔ سات دن بعد، نو ہیلی کاپٹر آئے اور فوج کو اتارنا شروع کیا۔ شام چار بجے تک فوج کی آمد جاری رہی۔ میں نے مخابرات میں ایک ساتھی سے حال احوال کیا اور پوچھا، “کیا حال ہے سنگت؟” اس نے جواب دیا، “ہم نکل گئے، چاچا میشدار تین ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوئے ہیں۔” میں نے پوچھا، “کون کون شہید ہوئے ہیں؟” اس نے بتایا، “شہید ادا روستو، شہید فرید، اور شہید مہران۔” ساتھی نے مزید کہا، “فوج کے گیارہ ایس ایس جی گماڈو ہلاک ہوئے، اور چاچا بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔” جب میں کیمپ واپس آیا، تو ساتھیوں نے پوچھا، “کیا حال ہے؟” میں نے کہا، “چار سنگت شہید ہوئے ہیں، ان میں چاچا بھی ہیں۔”
اس شام کو جب چاچا کیمپ آئے تھے، تم نے پوچھا تھا کہ تمہارے بیٹے جنگ میں شامل ہیں کہ نہیں؟ جو نوجوان لڑکا طالب اس کے ساتھ تھا، وہی اس کا بیٹا ہے۔
چاچا اس دن ہمارے پاس آیا، وہ نوجوان کون تھا؟ سنگت نے بولا، “وہی تھا طالب، چاچا کا بیٹا۔” کچھ وقت گزرنے کے بعد، طالب کو میں نے دیکھا۔ “ہاں طالب جان، آپ کیسے ہو؟” بولا، “میں ٹھیک ہوں، تم کیسے ہو سنگت؟” اور کیسا رہا تمہارا گشت؟
میں نے کہا، “میں نے دو تین فوجی کام کیے ہیں۔ ایک ریموٹ میں گاڑی کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ دو دن کے بعد اور دو کام کیے ہیں۔” میں بولا، “اچھا، بہت دن میں ان کے ساتھ رہا، بس یہ اپنے کاموں میں مصروف تھا۔”
ایک دوست نے کہا، “میں گشت میں جا رہا ہوں۔” میں نے ان کے بارے میں سنگتوں سے پوچھا، “طالب کیسے ہیں؟” سنگت نے مجھے جواب دیا، “طالب ایک گشتی کمانڈ ہے، یہ نہ تو سردی کا پروا کرتا ہے نہ ہی گرمی کا، دشمن کے خلاف ہمیشہ جنگ کرنا اس کے ذہن میں ہے، اس کے ذہن میں بس یہی خیال ہے کہ ہم اپنے دشمن کو کیسے مجبور کریں اور اسے نیست و نابود کریں۔”
اس کے بعد، میں نے بہت وقت گزرنے کے بعد، دوستوں کے ایک میٹنگ کے ٹائم طالب کو دیکھا اور مجھ سے بولے، “اپنے آپ کو مضبوط کرو، جنگ کی تیاری ہے، دشمن کو بتاؤ گے کہ آپ کو بلوچ سرمچار کیسے زلیل کرتے ہیں۔”
میں نے پوچھا، “ہمارا ٹارگٹ کون سا ہے؟” بولا، “مچھ شہر ہے، دشمن کو ایک ایک کرکے ماریں گے۔”
پھر ایک دن طالب کا چھوٹا بھائی خالد آیا، وہاں جنگ کی تیاری ہو رہی تھی۔ میں نے دیکھا، خالد آیا، کچھ بارود اس کے ہاتھ میں تھے۔ “اے بیٹا!” تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد ایک سنگت نے خالد کو آواز دی، “بولا، آپ جاو، فوجی مڈی لے کے آو۔” خالد فوراً اٹھا اور روانہ ہوا۔
ایک سنگت نے کہا، “خالد، آپ ابھی آ رہے ہو؟ آپ ریسٹ کرو، میں جاؤں گا۔” خالد نے جواب دیا، “جی قربان، میں خود جاؤں گا۔” سنگت نے بہت کوشش کی، لیکن یہ دونوں دوست ایک ساتھ چلے گئے۔
خالد اور طالب پھر دو تین دن کے بعد اپنے ٹیموں کے ساتھ نکل گئے۔ جنگ میں خالد ہمارے ساتھ تھا اور خالد کی ذمہ داری تھی دشمن کے ہیلی کے ساتھ جنگ کرنا، بیک اپ کو روکنا۔ ہم فرنٹ میں تھے۔ دن میں ہم نے انتظار کیا، رات کو ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ خالد نے اپنی پوزیشن پر بیٹھا ساتھیوں کی سمت دیکھی۔ رات نو بجے بیس کا ٹائم تھا۔ سنگ فاروق نے بارود سے بھری گاڑی مچھ ایف سی کینٹ سے ٹکرائی، تو آپریشن درہِ بولان کا آغاز ہوا۔ ایک گھنٹے کے بعد دو ہیلی آئے، خالد ہیلی سے مقابلہ کر رہا تھا۔ کچھ منٹ بعد ہیلی چلے گئے۔
میں نے خالد سے رابطہ کیا، “ہاں خالد، کیا حال ہے؟” خالد نے کہا، “ہیلی آئے، میں نے مقابلہ کیا ہے۔” میں نے بولا، “واقعی شیر!” شہر میں داخل ہونے نہیں دینا، خالد نے کہا، “آپ لوگ بے فکر رہو سنگت، رات بھر ہم دشمن سے لڑتے رہے، صبح ہوئی، واپس ہیلی آئے، پھر خالد کے ساتھ جھڑپ ہوئی، خالد بہادری سے لڑتا رہا، دشمن کو شہر میں داخل ہونے نہیں دیا۔”
طالب نے ہمارے ساتھ رابطہ کیا، بولا، “آپ کیسے ہو؟” ہم نے کہا، “ہم نے دشمن کو گھٹنے ٹکنے پہ مجبور کیا۔” طالب جان، کہا، “مچھ شہر ہمارے کنٹرول میں ہے، آپ لوگ آؤ میرے پاس۔” ہم نے کہا، “ٹھیک ہے، ہم آ رہے ہیں۔” ہم گئے، وہاں دو دن تک دشمن سے لڑتے رہے۔ تیسرے دن تنظیم کی طرف سے پیغام آیا کہ جتنے بھی ساتھی ہیں، سب کو اب مچھ شہر سے نکلنا ہے۔ پارٹی آرڈر کے بعد ہم شہر سے نکل گئے۔ مچھ پورا شہر ہمارے کنٹرول میں تھا۔
اس کے بعد ہمارا ٹیم نگاو کی طرف روانہ ہوا۔ اس جنگ کے دوران سرزمین کے کچھ عاشقوں نے اپنا حق ادا کیا، جن میں شامل تھے: فدائی فاروق، فدائی عطا، فدائی صدام، فدائی سائیں زیشان، فدائی سلال، فدائی نظام، فدائی حمل مومن، فدائی ودود ساتکزئی، فدائی قاسم، فدائی بالی نادر اور فدائی آفتاب زیشان۔ اور فتح اسکواڈ کا سنگت روکین کاشف اس مشن میں شامل تھا۔
اس دن مادرِ وطن بہت خوش ہوگی اپنے بیٹوں کو اپنی کوکھ میں لے کر اور فخر محسوس کرے گی کہ جب بھی میں نے اپنے فرزندوں کو پکارا، تو انہوں نے خوشی خوشی اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا۔
درہ بولان کے کامیاب آپریشن کے بعد، جب ہم سارے دوست کیمپ کی طرف واپس جا رہے تھے، تو دوستوں کے پاس جو بیگ تھے وہ بہت وزنی تھے۔ طالب ہر ایک سنگت سے بولا، “جی سنگت، آپ اپنا بیگ مجھے دو۔” ہم نے کہا، “طالب، تمہارا قد ان وزن سے کم ہے۔” بولا، “نہیں، میرا وزن زیادہ نہیں ہے، آپ لوگ تکلیف میں ہیں۔”
رات ہم نے سفر کیا، جب کیمپ میں پہنچے تو کچھ دن بعد میں نے پوچھا، “طالب جان، کیا خیال ہے؟” کہا، “خیال تو دشمن کو مارنا ہے، بس جہاں جہاں بھی اسے دیکھو، بس مکمل ہمت اور حوصلے سے اس سے لڑنا ہے۔”
اس دوران، میں اور طالب ساتھ رہے، اور کچھ دنوں بعد ایک دن خالد بھی آیا۔ ہم ایک ساتھ تھے۔ طالب نے مجھ سے کہا، “سنگت، اب یہ جنگ آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔” خالد ہنستے ہوئے بولا، “آپ لوگ بھی آ گئے۔” سنگت، پریشان نہیں ہونا۔
کچھ دن بعد، طالب سفر کے لیے نکل گئے۔ خالد میرے ساتھ تھا، ہم اپنے کیمپ میں تھے، بہت سے ساتھی تھے۔ رات پہرا شروع ہوا، چار بجے کا ٹائم تھا۔ میں نے خالد کو جگایا، میں سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ مجھے فائرنگ کی آواز آئی۔ خالد نے مجھے آواز دی، “سنگت، آپ لوگ نکل جاؤ، میں ان کو سنبھالتا ہوں۔”
جنگ شروع ہو گئی۔ نوید میرے ساتھ تھا، مجھے کہا، “آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکلیں۔” ہم نکلے، خالد اور نوید سنگر میں بیٹھ کر دشمن کو پیش قدمی سے روکتے رہے تاکہ سنگتوں کو نکلنے کا موقع ملے۔ دوسری طرف سنگت چاکر بھی ساتھیوں کو دشمن کے گھیرے سے نکالنے میں کامیاب ہوا۔ ایک طرف خالد اور نوید، دوسری طرف سنگت چاکر دشمن پر کہر بن کر برس پڑے۔
کچھ دن بعد، طالب بھی اپنے دوستوں کے ساتھ بیلہ کے کینٹ میں ہیروف آپریشن میں فدائی حملے میں فدائی مشن کا کمانڈ کرتے ہوئے اپنے فدائی دوستوں کے ساتھ مہرِ زمین پر فدا ہوئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔