حب چوکی سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے صحافی زبیر بلوچ کے لواحقین و بلوچ یکجہتی کمیٹی حب زون نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا جبری گمشدگی ایک ایسا ناسور ہے جس سے آج ہر بلوچ گھر متاثر ہے۔ کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا، اور کسی کا باپ اس ریاست کے عقوبت خانوں میں بلوچ ہونے کی سزا کاٹ رہا ہے۔ آج ہم آپ کے سامنے اپنا نوحہ سنانے آئے ہیں، جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اس ظلم کے خلاف دھرنے جاری ہیں۔
انہوں نے کہا قلات میں سید اختر شاہ کے لواحقین ان کی بازیابی کے لیے دھرنا دیے بیٹھے ہیں، اور تربت ڈی چوک پر ظریف بلوچ کے خاندان والے ان کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لواحقین کا کہنا تھا زبیر ولد الطاف بلوچ، جو تجابان، تربت کے رہائشی اور بلوچستان یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویٹ ہیں، صحافت کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں چھٹیوں کے سلسلے میں حب چوکی آئے ہوئے تھے کل رات تین بجے مسلح افراد گھر میں گھس کر انہیں زبردستی اٹھا کر لے گئے۔
لواحقین نے کہا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ یہ عمل ریاست اور اس کے اداروں کی جانب سے کیا گیا ہے، اور ہمیں شدید خدشہ ہے کہ زبیر بلوچ کو بھی اجتماعی سزا کے طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، جیسا کہ بلوچستان میں دیگر جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں دیکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا بلوچستان میں جبری گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر ہمیں ڈر ہے کہ زبیر بلوچ کو بھی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ریاست ہمارے پیاروں کو تشدد کر کے جبری طور پر لاپتہ کرے اور ہم خاموش رہیں۔ ہمارا مطالبہ بالکل واضح ہے: زبیر بلوچ کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے۔
لواحقین کا کہنا تھا ہم حب چوکی میں بھوانی بھائی پاس چوک پر دھرنا دے رہے ہیں، اور اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔ ریاست کو تین دن کی مہلت دیتے ہیں کہ زبیر بلوچ کو باحفاظت بازیاب کیا جائے، وگرنہ احتجاج کو مزید وسعت دیتے ہوئے سخت لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔
لواحقین نے مزید کہا ہم بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ جبری گمشدگی کسی ایک خاندان کا نہیں، پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہیں گے تو کل کسی اور کا بیٹا، بھائی، یا والد لاپتہ ہوگا۔ ہمیں یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کرنی ہوگی تاکہ ریاست کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ ہم اس ظلم کے خلاف خاموش نہیں بیٹھیں گے۔