زاہد آسکانی کی تعلیمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ درپشان بلوچ

35

‏بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی چئرمین درپشان بلوچ نے کہا ہےکہ زاہد آسکانی کو ریاست کی جانب سے آج سے 10 سال پہلے 4 دسمبر 2014کو ایک مخصوص سازش کے تحت نشانہ بناکر شہید کیا جس کا بنیادی مقصد گوادر اور ارد و گرد میں روشن خیالات پر مبنی تعلیم کو متاثر کرنا اور اس کی جگہ مذہبی جنونیت پسندی پر مبنی تعلیم کو بلوچستان میں عام کرنا تھا۔سنچار زاہد آسکانی بلوچستان میں ان عظیم شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے بلوچ قومی تحریک میں تعلیم کے میدان میں اعلی قدام انجام سرانجام دیے ہیں، بلوچ بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے اور انہیں جدید دنیا کے مقابلے میں تیار کرنے کی پاداش میں ریاست نے انہیں اپنے مقامی جنونیت پسند ٹرینڈ شدہ اہلکاروں کے ہاتھوں شہید کراویا۔ گوکہ انہیں شہید کرتے ہوئے ریاست کی نیت بلوچستان اور بلخصوص ساحلی بلٹ میں جنونیت پسندی کو ہوا دینا تھا لیکن بلوچ قوم نے ریاست کی سرپرستی میں قائم جنونیت پسندی کو مکمل رد کرتے ہوئے روشن خیالات کو اپنے سماج میں پروان چھڑاتے ہوئے تعلیمی سوچ کو مزید مضبوط کیا ہے۔ آج شہید زاہد اسکانی کی کردار اور محنت کی بدولت مکران بلخصوص ساحلی علاقوں میں بچہ بچہ قومی اور فکری تعلیم سے آراستہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ‏جیسے کسی بھی غلام سماج میں ایک بنیادی مسئلہ نوآبادیاتی تعلیم کا ہے، یہ ہر قبضہ گیر کی فطرت میں ہے کہ وہ شعوری اور تخلیقی تعلیم کا خاتمہ کرتے ہوئے غلام سماج کے اندر جھوٹ پر مبنی تعلیم کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ نوجوان سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم رہیں اور نوجوان اپنے حقیقی مسئلے سے بے خبر رہیں۔ آج بلوچ نوجوان جن بھی ذہنی اور فکری مسائل کا شکار ہیں یہ سب قبضہ گیر کی پیداوار ہیں لیکن زاہد آسکانی ان کے مقابلے میں ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑا رہا ہے اور بلوچستان میں تخلیقی و فکری تعلیم کو اوجاگر کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔ انہوں نے ان جدید تعلیم سے نوجوانوں کو آشنا کرنے کیلئے پرائیوٹ اسکولوں کی مدت لی اور نوجوانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرتے ہوئے انہیں ریاستی جھوٹ پر مبنی تعلیم سے دور رکھا۔ اسی وجہ سے زاہد آسکانی کو شہید کرنے کیلئے ریاست نے اپنے پیداکردہ انہی جنونیت پسند افراد کا سہارہ لیا جنہیں ان کی روشن فکر تعلیم سے خوف آ رہا تھا۔ استاد زاہد آئی ایس آئی کی پیدا کردہ ان مدرسہ کلچر کے خلاف تھا جن کا مقصد بلوچ نوجوانوں کی فکری اور شعوری تعلیم سے دور رکھنے پر مبنی تھا، یہ یہی لوگ تھے جنہوں نے کیچ میں ٹیچر روف کو شہید کیا، استاد صبا، پروفیسر رزاق، نزیر مری، استاد علی جان بھی ریاست نے انہی کے ہاتھوں شہید کروائے تاکہ ان کا جنونیت پسند بلوچ سماج میں جاری رہے لیکن زاہد جیسے استاد ہمیشہ ان کے خلاف مضبوط دیوار کی طرح کھڑے رہے ہیں اور بلوچ سماج کی ترقی و تعمیر میں کردار ادا کیا ہے۔

‏چیئرمین نے کہاکہ کسی بھی قوم کی تشکیل میں تمام شعبہ جات کے افراد اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں، شعبہ تعلیم کے سلسلے میں سر زاہد آسکانی تمام بلوچ ٹیچرز اور صاحب علم سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے ایک رول ماڈل کی طرح ہیں، انہوں نے اپنے عمل اور کردار سے واضح کیا ہے کہ کسی غلام سماج میں استاد کس طرح اپنا کردار ادا کرتا ہے اور ان کی اصل زمہ داریاں کیا ہیں۔ سر زاہد آسکانی کے قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور بلوچ ٹیچرز اور تعلیم یافتہ افراد سے یہی درخواست کرتے ہیں کہ وہ زاہد آسکانی کے فلسفے کو لیکر آگے بڑھیں اور قومی ترقی و آزادی میں اپنا کردار ادا کریں۔