دیدارِ صبا شہید چاکر لیاقت عرف تابش
تحریر: میرل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بہار کی خوشگوار موسم میں سورج ڈھل چکی تھی جب ایک دوست سفر سے آپہنچا پیدل لمبی سفر طے کرتے کرتے پورا بدن پسینے سے لت پت ہو چکی تھی۔ پیاس سے ہونٹ خشک اور آواز گرج دار بنا تھا لیکن دوستوں کو دیکھتے ہی چہرے پر مسکراہٹ لئے اپنی گرج دار آواز کیساتھ دوستوں کو سلام کہہ کر مجلس کو اپنی طرف متوجہ کر گیا۔
پہاڈوں کے بیچ ایک لمبی سرکل بنائے کچھ سرفروش جوان اپنی جنگی صلاحیتوں کا تجزیہ اور تنظیمی پروگرامز کے بحث میں مصروف عمل تھے کہ بلوچی سلام پہنچا اور سب اسی طرف متوجہ ہو گئے بلوچی وش آھت اور حال آحوال شروع ہوئی یہ وہی ملاقات تھی جب پہلی دفعہ میری ملاقات جہد آجوئی کی سفر میں شہید چاکر لیاقت سے ہوئی ان سے واقفیت جہد آجوئی کے سفر سے پہلے معمولی درجہ کی تھی، جب پہلی گفت وشنید میں انہیں جیسا دیکھا لمحہ فکر میں گم سا گیا کہ خدا کرے یہ ملاقات ہماری آخری نہ ہو۔
ان دنوں حالات کچھ معمول کے مطابق نہیں تھے گران گزران دن تو عموماً اپنے ساتھ یاداشت چھوڈتے ہیں لیکن ان کٹھن وقت اور حالات کے اندھیری رات میں چراغ جیسا کردار نبانے والے دوست ہمیشہ روشی کی مانند رہنمائی اور حوصلوں کا چیدہ بنے پرتے ہیں۔وه کردار جیسے ہم کبھی کونا نہیں چاہتے ہوں، وہ زانت جیسے ہمیشہ امر کرنا چاہیں۔
شہید چاکر ایک مہروان دوست ہونے کی حیثیت سے بہت جلد جہدکاروں اور عوام میں مقبول ہوئے اوتاک میں دوستوں سے شفقت سے پیش آنا اپنے سے بڑے عمر کے دوستوں کا احترام، نئے دوستوں کے ساتھ پیار سے پیش آنا، ان کی زہنی تربیت کرنا ان کے کاموں میں ہاتھ بٹانا اور ہر کسی کا خیال رکھنا ان کی کردار کو مزید روشنی بخشتے تھے۔
اپنی زانت کو لیکر وہ عملاً علم اور عمل کے بیچ کے ہنر کو پرکھنا جانتا تھا وہ جانتا تھا کہ علم کو کیسے پرکھتے، کیسے جانچتے ہیں سوچ میں احتساب اور عمل میں مساوات کب کہاں کیسے اور کیوں لاتے ہیں۔
اپنے اسی علم کے ساتھ دیوان میں اپنی سوچ کو ایسے منواتے کہ نہ وہ کوئی سرکل کا شکل اختیار کرتا اور نا ہی رسمی مجلس، بلکہ اپنی سوچ اور نقطہ نظر کو دوسروں کی زبان سے نکلوا کر اسی پر اتفاق رکھتا ایسے میں انکی اپنی سوچ کو پزیرائی ملتی رہی اور سامنے بیٹھے دوست کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی کہ انکے زاویہ نظر پہ مظبوط دلائل کے ساتھ اتفاق رکھتا ہے، عزت اور احترام کا بھی شمع امر ہوتا گیا۔
وہ شعور کی حدوں کو صرف کتابوں میں نہیں ڈھونڈتا تھا بلکہ اپنی باتوں میں اکثر والدین سے ملی تربیت کو عملی و فکری زندگی میں جنجھوڈتا اور گفت شنید میں چرواہوں کی باتوں کو آگے لاکر انہیں ایسے پیش کرتا جیسے سارتر یا ارسطو اس سے مخاطب ہوئے ہوں۔
ہم لوگ جب ہنستے اور مزاقا ان سے کہتے یہ چرواہے کیا جانتے ہیں ان کو کیا پتہ تو یہی بات دھراتے کہ آج سے چند سال بعد دنیا کے کسی بھی کونے میں جب کسی مظلوم کو اپنی غلامی سے بغاوت کرنے کا احساس ہو تو انہی چرواہوں کے اقوال پڑھ کر خود کو تربیت کرینگے۔
بھروسہ اور یقین اپنے قوم پر ایک جہد کار کو جدوجہد کی آخری حد تک جانے کے لئے شعوری ایندھن فراہم کرتی ہے اور انہیں اپنے قوم پر پورا بروسہ تھا تب ہی وہ جان لینے اور جان دینے سے کبھی نہیں کھتراتے تھے۔
پنچگور، مشکے، گچک، کیلکور، کولواہ، اور پروم کے مہازوں پے مختلف کاروائیوں میں بہادری اور دیدہ دلیری سے دشمن کو اپنی جنگی صلاحیتوں سے آشنا کرتے رہے اور آج تک بلوچ قومی تحریک سے جڑھ ہوئے سرمچار ان کی صلاحیتوں اور پختہ سوچ اور فخر کی مثال اپنے دیوان اور تربیتی مجالس کی زینت بنا کر یاد کرتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔