دس دسمبر: انسانی حقوق کا “یادگار دن” نہیں، فاتحہ ہے – سعید یوسف بلوچ

110

دس دسمبر: انسانی حقوق کا “یادگار دن” نہیں، فاتحہ ہے

تحریر: سعید یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج پوری دنیا میں انسانی حقوق کا دن منایا جا رہا ہے اور یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا حصہ ہے۔ ویسے تو یہ بیسویں صدی سے قبل کا اصطلاح یا قانون ہے، لیکن انسانی حقوق دراصل فطری حقوق ہیں جو فطرت انسان کو دیتی ہے۔ ہر انسان اور ہر قوم کو جینے اور آزادی سے رہنے کا حق دیتا ہے۔ ہر قوم کے اپنے جغرافیائی حدود، کلچر، تہذیب، زبان، ثقافت، رسم و رواج اور نظریات ہیں۔ ہر قوم اور انسان کی خواہش ہے کہ وہ آزاد رہے، آزادی سے نقل و حرکت کر سکے، آزادی سے بولے، جبر، تشدد اور قبضہ سے بچے، اور اپنی نظریہ، وطن دوستی اور راج دوستی میں آزاد ہو، خود مختار ہو۔ اس کا بلا کسی بیرونی سیاسی طاقت کے اپنی ریاست اور قوانین ہوں، اور کوئی بیرونی طاقت اس کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور جغرافیائی حدود میں مداخلت نہ کرے، اسے غلام نہ بنائے، اس پر تشدد نہ کرے، اس پر جبر و جارحیت کے قہر نازل نہ کرے۔ یہ سب کچھ اسے فطرت دیتی ہے اور اقوام کے درمیان بھی یہی عمرانی معاہدہ ہے کہ بقائے باہمی کے ساتھ زندگی گزارے۔

اس حوالے سے اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ “United Nations Human Rights Council” کے نام سے کام کر رہا ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا دفاع اور تحفظ ہے۔ اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی باضابطہ دستاویز اور قرارداد “Universal Declaration of Human Rights” جو 10 دسمبر 1948ء کو پیرس میں باقاعدہ منظور کی گئی، یہ قرارداد دوسری عالمی جنگ عظیم کی تباہیوں کے فوراً بعد منظر عام پر آئی۔ اس قرارداد کی رو سے دنیا بھر میں پہلی بار ان تمام انسانی حقوق پر اتفاق رائے پیدا کیا گیا جو ہر انسان کا بنیادی حق ہیں اور بلا تفریق ہر انسان اور ہر قوم کو فراہم کیے جانے چاہیے۔ اس قرارداد میں کل 30 نکات شامل کیے گئے ہیں جو تمام بین الاقوامی معاہدوں، قومی دستوروں اور قوانین سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسانی حقوق باضابطہ بین الاقوامی بل کا حصہ ہے۔ 1966ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے انسانی حقوق کے عالمی بل میں شامل معاہدوں کو منظور کیا جس کے بعد اب تک اس بل کو انسانی حقوق کے بارے میں ایک مکمل دستاویز قرار دیا جاتا ہے۔

لیکن ہم آج جس خطے میں رہ رہے ہیں اور دس دسمبر منا رہے ہیں، ہمارے انسانی حقوق سلب کیے جا چکے ہیں۔ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھا جا رہا ہے، محض کاغذی دستاویزات سے ہمیں بہکایا جا رہا ہے کہ انسانی حقوق بھی دنیا میں کوئی معنی رکھتے ہیں۔ آج بلوچ وطن میں نوآبادیاتی ریاست بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ بلکہ انسانی حقوق کے دن کے موقع پر ہمارے لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ اور انسانی حقوق کے چیمپئن اور عالمی اداروں کی خاموشی یا نیم رضامندی سے موقع سمجھ کر نوآبادیاتی ریاست آزادانہ اور بلا روک ٹوک بلوچ سیاسی کارکنوں کو نہ صرف جبری گمشدگی کا شکار بناتی ہے۔ بلکہ ان کی اوپن ٹرائل کرنے کے بجائے اپنی ہی بنائی گئی قوانین کو روندھ کر انہیں ماورائے عدالت جعلی مقابلوں میں شہید کر دیتی ہے۔

جب انسانی حقوق کے چارٹر کی منظوری دس دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باقاعدہ منظور کی گئی تھی، اور اس عالمی تنظیم میں شامل تمام ممالک نے اس چارٹر پر دستخط بھی کیے تھے، تو مظلوم اور زبردست اقوام کو ایک حوصلہ ملا تھا کہ اقوام متحدہ اب ان ممالک کی ظلم و بربریت کی پالیسیوں میں نکیل ڈالے گی۔ لیکن اقوام متحدہ کے بانجھ اور غیر فعال کردار سے یہ لگتا ہے کہ یہ طاقتور اقوام کے لئے بنایا گیا ہے، کمزور قوموں کے لئے یہ اب تک کارگر ثابت نہیں ہوئی، جس کا سلطانی گواہ خود بلوچ قوم ہے۔
جہاں دہائیوں سے بلوچ قوم کے بے رحمی کے ساتھ نسل کشی کی جا رہی ہے، سالوں سے مائیں اپنی جبری گمشدہ بیٹوں کی بازیابی کے لئے احتجاج کر رہی ہیں لیکن اقوام متحدہ جیسے ادارے ریاست کی نسل کش پالیسیوں اور بلوچ انسانی بحران کے خلاف کسی بین الاقوامی فیصلہ کے پوزیشن میں نظر نہیں آتے۔ اب تک ریاست کو باضابطہ نہ تو چارج شیٹ کیا گیا اور نہ ہی اسے کسی دباؤ، بندش یا پابندی کے زیر اثر لایا گیا، بلکہ اقوام متحدہ ان کے بربریت کے پیچھے چھتری بنے ہوئے ہیں۔

ہم سمجھ چکے ہیں کہ انسانی حقوق کا نعرہ لگا کر بلوچ قوم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے، یہ ڈھکوسلہ نعرہ ہے۔ بلوچستان میں روزانہ کے حساب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ روزانہ درجنوں واقعات انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے ریکارڈ کی جا رہی ہیں۔ ریاستی جارحیت میں مندی کے بجائے شدت پیدا ہو رہی ہے، لیکن اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتیں، ویٹو پاور ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی چارٹر کے ذریعے انسانی حقوق کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ دس دسمبر انسانی حقوق کا یادگار دن نہیں بلکہ انسانی حقوق کا مرثیہ اور فاتحہ کا دن کہا جائے تو مناسب ہوگا۔

انتہائی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ریاست کے ساتھ شریک بلوچ اقتداری منافع خور سیاستدان بھی انسانی حقوق کی واویلا بلوچ عوام کی ہمدریاں جیتنے کے لئے کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ ریاستی پارلیمنٹ اور چند نشستوں کے حصول اور مراعات کو اپنی منزل و اہداف سمجھتے ہیں، دوسری طرف وہ بلوچ عوام کی منافقانہ طرف داری کے ساتھ خود کو بلوچ دوست ظاہر کر رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو بلوچ پارلیمنٹرین کی اب تک نکسیر تک بلوچستان کے لئے نہیں پھوٹی، گھر ان لوگوں کے اجڑ گئے ہیں جو قومی جدوجہد میں اپنی زندگیاں قربان کر چکے ہیں۔ آج ان کی قربانیوں اور ان کی گمشدگی کی اذیتوں کو کیش کرنے کے لئے پارلیمانی جماعتیں بڑی چالاکی سے تحریک میں گھسنے کی کوشش کر رہی ہیں، حالانکہ یہ پارلیمنٹ کا حصہ ہوتے ہوئے خود انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں، جیسے کہ بلوچی میں کہتے ہیں “اگر آپ چور نہیں تو چور کا سہولت کار ہے”۔

دس دسمبر کے دن اگر بولا جائے اور بولنے کی آزادی ہو، کوئی سنسرشپ قدغن اور بندش نہ ہو، تو اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے دعوی کرنے والی عالمی چیمپئن انسانی حقوق کے دفاع میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ اگر غیر جانب داری سے دیکھا جائے، منافقت و مصلحت سے بالاتر ہو کر تجزیہ کیا جائے، تو اقوام متحدہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے دفاع میں آزادی سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں نہ صرف ناکام ہو چکی ہیں بلکہ نوآبادیاتی طاقتوں کے مفادات اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی پشت پناہی کی ہے۔ گو کہ اقوام متحدہ ایک معتبر ادارہ ہے، لیکن ایمانداری اور سچائی سے اگر قوموں کے حقوق کے محافظ اور دعویدار کے عملی کردار پر غور کیا جائے تو قدم قدم پر ان کی پالیسیاں مصلحت اور فریب میں لپٹی نظر آتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے قیام کے بعد ہی دنیا کے دیگر اقوام کے تنازعات کے ساتھ بلوچ قومی مسئلہ بھی حل طلب متنازعہ معاملہ کے طور پر وجود رکھتا تھا، جو اب بھی دہائیوں کے خونریزیوں کا سامنا کرتے ہوئے جاری ہے۔ اب تک ریاست اور بلوچ قوم کے درمیان جاری قومی خودمختاری کے تنازعہ میں ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، اور ہزاروں جبری گمشدگی کے اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ جو بازیاب ہو رہے ہیں، وہ زندہ لاش بن کر اپاہج اور ذہنی و نفسیاتی معذوری میں زندگی گزار رہے ہیں۔ نوآبادیاتی تسلط کے سبب نہ صرف ہر سال ہزاروں بلوچ علاج معالجہ کی سہولت نہ ملنے کے سبب سے موت کو گلے لگاتے ہیں بلکہ تابکاری اثرات کی وجہ سے کینسر سے لڑ لڑ کر جان سے گزر جاتے ہیں۔ پینے کے صاف پانی تک کے لیے ترستے ہیں، ذہنی بیماری کی وجہ سے خود کشیاں کرتے ہیں، روڈ حادثات میں شہید ہوتے ہیں۔ ان سب کے پیچھے ریاست کا تسلط آمیز رویہ ہے، بلکہ اس جنگ زدہ خطے میں سے ہزاروں خاندان بیرون ممالک پناہ گزینی اور مہاجرت کے عذاب جھیل رہے ہیں۔ قومی خودمختاری کے مطالبہ اور حقوق کی اس جدوجہد کی پاداش میں ساتھ دہائیوں سے ریاست بلوچ قوم کو خاک و خون میں ڈبو کر انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر مشتمل پالیسیاں اپنا کر انسانی حقوق کو پیروں تلے روندھ رہی ہے۔ بلوچستان کو عملاً ایک قید خانہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے، نہ بولنے کی آزادی ہے، نہ پڑھنے کی آزادی ہے، بلکہ زندہ رہنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ سیاسی اور پرامن جمہوری جدوجہد کے راستے بند کر دیے گئے ہیں، تحریر اور تقریر پر پابندی ہے، نقل و حرکت پر بندش ہے۔

انسانی حقوق کی ان پامالیوں کے خلاف اقوام عالم، اقوام متحدہ، اور بین الاقوامی کمیونٹی سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی متعدد اپیلیں، احتجاجیں، مظاہرے اور تمام سیاسی ذرائع کے ذریعے توجہ دلانے کے باوجود اقوام متحدہ اور مہذب دنیا انسانی حقوق کے علمبردار انتہائی غیر سنجیدگی اور خاموشی سے بلوچ قوم کے قتل عام کا جشن منا رہے ہیں۔ دنیا کے لیے انسانی حقوق کے معنی و مطلب ہوں گے، لیکن بلوچ کے لیے اب انسانی حقوق کا اصطلاح بوسیدہ ہو چکا ہے۔

اگر اقوام متحدہ بلوچ قومی مسئلے کو سنجیدہ لے اور بلوچ وطن میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ دے کر اپنی عالمی ذمہ داریوں کو سمجھے تو ان سنگین اور اندوہناک خلاف ورزیوں کے لیے آزادانہ عالمی تحقیقات پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی قائم کرے اور بلوچستان میں ہونے والی جبری گمشدگیوں اور جارحانہ واقعات کا ڈیٹا جمع کرے، اور احتساب کا سلسلہ شروع کرے تاکہ نوآبادیاتی طاقتوں کو جوابدہ کیا جا سکے۔ حالانکہ اس میں مبالغہ نہیں کہ اقوام متحدہ کو بلوچستان میں جاری سنگینی اور معتبر معلومات کا علم ہے، لیکن انہیں چاہیے کہ وہ روشن خیالی کا مظاہرہ کر کے انسانی حقوق کے دن کو نمائشی نہ لیں بلکہ عملی طور پر اپنی ذمہ داریاں اور اختیارات کا استعمال کریں، اور بلوچستان میں جاری وسیع تباہ کاریوں اور خونریزیوں کا نوٹس لے کر بلوچ قومی مسئلہ کا تاریخی، فطری اور منطقی حل عالمی ثالثی کے ایجنڈے میں شامل کرے اور اپنی انسان دوست سوچ میں لچک اور وسیع نظری پیدا کرے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بلوچ قومی خودمختاری پر کمپرومائز نہ کیا جائے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں