خضدار، سرداروں کے کنٹرول سے باہر نہ آسکا – کوہی بلوچ

163

خضدار، سرداروں کے کنٹرول سے باہر نہ آسکا

تحریر: کوہی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے مختلف شورش زدہ علاقوں میں سرداری نظام چلتا آرہا ہے۔ یہ نظام برطانوی کالونائزیشن کے وقت بلوچستان میں نافذ کیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ جب انگریزوں نے اپنے دور میں “برصغیر” کو اپنے قبضے میں رکھا تھا تو بلوچستان بھی شامل تھا۔ جب وہ یہاں سے واپس چلے گئے، تو وہ اپنے “Divide and Rule” پالیسی کے تحت کچھ اپنے “پٹھوں” کو سردار و معتبر بنا کر گئے تھے۔ وہی سرداری نظام ابھی تک ہمارے لئے سرِدرد ہے۔

بلوچستان میں سرداری نظام کی بنیاد انگریزوں نے 1876ء میں رکھی تھی۔ اکثریتی رائے کے مطابق بلوچستان کی پسماندگی کی بڑی وجہ یہی سرداری و نوابی نظام ہے۔
1976ء میں سرداری نظام کے خاتمے کا ایکٹ پاس کیا گیا، جس کے بعد بلوچستان سے مسلح جدوجہد اور آزادی کی تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک پوری شدت سے جاری ہے۔

اگر ہم بات کریں ضلع خضدار کی، تو ضلع خضدار ہمیشہ ایک مزاحمتی زون رہا ہے۔ شہید نواب نوروز خان سے لے کر شہید نواب نورا مینگل اور زاہد کرد جیسے لیڈروں کو جنم دیا ہے، اور ابھی بھی ایسے بہت سارے گمنام ہیروز ہیں جو اپنے اپنے نظریے کے مطابق مزاحمت کر رہے ہیں۔ تو دوسری طرف ان مزاحمت کاروں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے ہر بار سردار ہی آگے آ جاتے ہیں، اور اس خطے کا سب سے بڑا سردار ہی رہا ہے۔

اس کے برعکس اگر اس خطے میں ہم دیکھیں تو سرداری نظام کا ایک بہت بڑا کردار رہا ہے اور ابھی تک بھی چل رہا ہے۔ اس خطے کے ہر گوشے میں آپ کو سردار ہی سردار ملے گا۔ کچھ کے نام یوں ہیں: زہری میں ثنا اللہ زہری اپنے خاندان کے ساتھ، خضدار شہر میں ظفر اور اسرار زہری، نال میں بزنجو قبیلے کے سرداروں کا حکومتی نظام چل رہا ہے، حاصل خان بزنجو، اسلم بزنجو، خالد بزنجو اور طاہر بزنجو ان میں شامل ہیں۔ وڈھ میں دیکھیں تو ایک طرف سردار عطاء اللہ کی فیملی، تو دوسری طرف میر نصیر خان مینگل اور میر شفیق الرحمن خان صاحب کی فیملی۔ اور ناچ میں سردار زادہ علم خان تمرانی کی فیملی، میر محمد، شیردل اور نعمت پتہ نہیں کون کون، ایسے بہت سارے نمونے ہیں۔ ان کے علاوہ ضلع خضدار میں اور بھی بہت سارے سردار و میر معتبر موجود ہیں۔

میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ضلع اتنا پسماندہ ہے، تو یہ سرداری نظام کی وجہ سے ہے۔ تعلیمی فقدان، شعوری فقدان، یا لوگوں کو دبانا، بے شعوری کی طرف مائل کرنا، ذہنی غلام بنانا اور لوگوں کو قبیلہ پرستی کی طرف لے جانا، یہ سب ہی سرداری نظام کے تحت آتا ہے۔ تاکہ لوگوں کا رجحان مزاحمت کی طرف نہ ہو، اور وہ تمام حالات سے بے خبر ہو جائیں۔

سرداری نظام، بورژوازی، فیوڈلزم یا سرمایہ دارانہ نظام ہو، ایسے نظاموں کو توڑنا اور مڑوڑنا ہمیشہ مزاحمت ہی کارگر ثابت ہوئی ہے۔ ابھی مزاحمت ہی وہ راستہ ہے جو خضدار اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کے سرداری نظام کو کیفرِ انجام تک پہنچا سکے۔
اس نظام کا سب سے بڑا بہودہ کام یہ ہے کہ لوگوں کو قبیلہ پرست بنانا۔ جب کوئی سوسائٹی قبیلہ پرست بن جاتی ہے تو دوسرے قبیلے کے لوگ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، لیکن پھر بھی ان کے دل سے اُتر ہی جاتے ہیں، جیسے جیسے وطن سے محبت کم پڑ جاتی ہے۔

اگر ہم دیکھیں، جھالاوان اور مکران کے لوگوں نے مزاحمت لگ بھگ ایک ہی وقت میں شروع کی تھی تو وہاں کے سرداری نظام ختم ہوگئے اور وہاں کے لوگوں نے ایک کتابی انقلاب بھی برپا کیا، لیکن خضدار کے سردار اور طاقتور ہوتے گئے۔ اس کی وجہ بس یہی ہوگی کہ اس خطے میں بہت سارے سردار موجود ہیں۔ اگر یہ نہیں ہوتے، تو جھالاوان اور مکران کے لوگوں کے اندر شعوری بیداری یکساں ہو جاتی، شاید۔۔۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔