حب چوکی سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے زبیر بلوچ کی بازیابی کے لیے ان کے اہلِ خانہ اور شہریوں کا احتجاج بدستور جاری ہے۔ شدید سردی کے باوجود لواحقین نے گذشتہ 8 گھنٹوں سے کراچی، کوئٹہ شاہراہ کو حب چوکی کے مقام پر ٹریفک کے لیے بند کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے سینکڑوں گاڑیاں اور مسافر پھنسے ہوئے ہیں۔
حکام کی جانب سے مذاکرات کے لیے موقع پر موجودگی کی اطلاع ہے، لیکن زبیر بلوچ کے اہلِ خانہ نے ان کی فوری بازیابی تک احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی ایک سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور وہ انصاف کے حصول کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔
زبیر بلوچ، جو بلوچستان یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویٹ ہیں، اور صحافت کے شعبے سے بھی وابستہ رہے ہیں، کو گذشتہ رات حب چوکی میں ان کے گھر سے فورسز نے حراست بعد جبری لاپتہ کردیا ہے۔
اہلِ خانہ کے مطابق، زبیر بلوچ ایک محنتی طالبعلم اور نوجوان صحافی تھے جن کا ماضی میں مقامی اخبار انتخاب سے بھی تعلق رہا ہے۔
زبیر بلوچ کے اہلِ خانہ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس احتجاج میں شرکت کریں اور اپنی آواز ان مظلوموں کے حق میں بلند کریں جنہیں ریاستی اداروں کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مظاہرین نے واضح کیا ہے کہ اگر زبیر بلوچ کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا تو احتجاج کو مزید وسعت دی جائے گی۔
احتجاجی مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس سرد موسم میں بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں اور انصاف کے حصول کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔