جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے اعلان کردہ مارشل لا منسوخ کردیا

72

جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے منگل کو دیر گئے مارشل لاء لگانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے گھنٹوں بعد ہی پارلیمنٹ نے اسے اٹھانے کے حق میں ووٹ دے دیا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر وو وون شیک نے اعلان کیا کہ قانون ساز “عوام کے ساتھ مل کر جمہوریت کی حفاظت کریں گے۔” وو نے پولیس اور فوجی اہلکاروں سے اسمبلی کے گراؤنڈ سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کیا۔

جنوبی کوریا کے قانون کے تحت، پارلیمنٹ میں اکثریتی ووٹ کے ساتھ مارشل لا کو اٹھایا جاسکتا ہے، جہاں حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔

ووٹنگ میں حصہ لینے والے تمام 190 قانون سازوں نے مارشل لاء کے خاتمے کی حمایت کی۔ ٹیلی ویژن فوٹیج میں ایسے فوجیوں کو دکھایا گیا جو پارلیمنٹ میں تعینات تھے اور ووٹنگ کے بعد وہاں سے چلے گئے۔

’جنوبی کوریا کی صورتحال پر گہری نظر ہے، امریکی محکمہ خارجہ

امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ جنوبی کوریا میں صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اور یہ کہ معاملات قانون کے تحت پر امن طریقے سے حل ہو جائیں گے۔

نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ان خیالات کا اظہار معمول کی بریفنگ میں جنوبی کوریا میں صدر کی جانب سے مارشل لا کے نفاذ کے اعلان اور پارلیمنٹ کی جانب سے اس مارشل لا کے خلاف ووٹ دینے کی اطلاعات کے بعد کیا ہے۔

ویدانت پٹیل نے کہا،’ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں کوئی فوری نتیجہ نہیں نکال سکتا، فی الوقت یہی کہہ سکتا ہوں کہ صورتحال پر گہری نظر ہے اور کچھ چیزوں پر گہری تشویش ہے‘

امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل کا کہنا تھا،’ہم جمہوریہ کوریا میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ اور جیسے ہی حالات واضح ہوں گے، ہم اس بارے میں مزید بات کر سکیں گے‘

’ہم جمہوریہ کوریا میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ اور جیسے ہی حالات واضح ہوں گے، ہم اس بارے میں مزید بات کر سکیں گے

صدر یون سک یول نے مارشل لاء کا اعلان کرتے ہوئے “ریاست مخالف” قوتوں کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ یہ اقدام اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا وہ ملک کی پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے والی اپوزیشن کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ اس پر کمیونسٹ شمالی کوریا کے ساتھ ہمدردی کا الزام لگاتے ہیں۔

صدر یون نے کہا کہ ان کے پاس آئین کے تحفظ کے لیے اس طرح کا قدم اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

انہوں نے خطاب میں ملک کی اپوزیشن پر پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے، شمالی کوریا کے ساتھ ہمدردی رکھنے اور ریاست مخالف سرگرمیوں سے حکومت کو مفلوج کرنے کا الزام بھی لگایا۔

صدر کے حیران کن اقدام نے آمر رہنماؤں کے اس دور کی یاد دلائی ہے جسے ملک نے 1980 کی دہائی سے نہیں دیکھا۔ اس اعلان کی فوری طور پر اپوزیشن اور یون کی اپنی قدامت پسند پارٹی کے رہنماؤں نے مذمت کی تھی۔

جنوبی کوریا کی یونہاپ نیوز ایجنسی کے مطابق، صدر کے اقدام کے بعد، جنوبی کوریا کی فوج نے اعلان کیا تھا کہ پارلیمان اور دیگر سیاسی اجتماعات جو “سماجی افراتفری” کا باعث بن سکتے ہیں، معطل کر دیے جائیں گے۔

یونہاپ کے مطابق فوج نے یہ بھی کہا کہ ملک کے ہڑتالی ڈاکٹروں کو 48 گھنٹوں کے اندر کام پر واپس آجانا چاہیے۔ میڈیکل اسکولوں میں طلباء کی تعداد بڑھانے کے حکومتی منصوبوں کے خلاف ہزاروں ڈاکٹر مہینوں سے ہڑتال کر رہے ہیں۔ فوج نے کہا کہ جو بھی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

قبل ازیں، ٹی وی نے پولیس افسران کو اسمبلی کے داخلی راستے کو روکتے ہوئے اور ہیلمٹ والے فوجیوں کو عمارت کے سامنے رائفلیں اٹھائے ہوئے دکھایا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک فوٹوگرافر نے کم از کم تین ہیلی کاپٹر دیکھے، جو ممکنہ طور پر فوج کے تھے، جو اسمبلی کے میدان کے اندر اترے، جبکہ دو یا تین ہیلی کاپٹر اس جگہ کے اوپر چکر لگا رہے تھے۔