جنرل اسلم بلوچ ایک عظیم استاد اور نڈر و بے باک رہنماء
تحریر: نودان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بولان کے سنگلاخ پہاڑ،شور پارود کے یخ بستہ کوہسار، باطیل و سیا جی کی بزرگ چٹانیں اور چلتن کی بلندی و دلکشی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جنرل اسلم بلوچ کی دلیرانہ و مدبر انہ فیصلوں اور انمول قربانیوں کی بدولت آ ج جدوجہدِ آ زادی تیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے اسلم نے اپنی خون سے آ زادی کا نقشہ سینچا اور بلوچ نوجوانوں کے لیئے راستہ ہموار کرکے چلے گئے، آ ج ہزاروں بلوچ نوجوان فکرِ اسلم کو زندہ و جاوید رکھنے کے لیئے جنگی محاذ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
جنرل اسلم نے بلوچ لبریشن آرمی کو اس وقت منظم کیا جب بی ایل اے ایک انتہائی اساس دور سے گزر رہا تھا،تنظیم بے سرو سامانی کا شکار تھا،ایک ایٹمی طاقت دشمن سے لڑنے کے لیئے جن وسائل کی ضرورت تھی وہ بالکل نہ ہونے کے برابر تھے مگر جنرل اسلم نے کبھی ہار نہیں مانی اور جہدِ مسلسل کو ترجیح دی،اپنی محنت،مخلصی اور فرض شناسی سے جنگ کو اس مقام تک پہنچایا کہ بلوچ عوام میں آ زادی کی امید جاگ اٹھی۔
کسی باپ کا اپنے لختِ جگر کو کسی مقصد کے لیئے قربان کرنے کے بارے میں ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی داستان پڑھنے کو ملی تھی لیکن جنرل اسلم نے یہ عظیم قربانی اپنے بیٹے ریحان اسلم کو وطن کی آ زادی کے لیئے قربان کرنے کی صورت میں دی جسے اہلِ جہاں نے اپنی آ نکھوں سے دیکھی، یہ وہ فیصلہ تھا جس نے بلوچ مسلح جنگ کو ایک نئی دور میں داخل کردیا اور یہاں سے قربانیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا جو بلوچ سرزمین کی آ زادی تک جاری رہے گی۔
جب بلوچ لبریشن آ رمی اپنی ابتدائی دور سے گزر رہا تھا تو بلوچ سرمچار شہری جنگ سے اتنی واقف نہیں تھے اور جنگ ایک روایتی طریقے سے جاری تھا، جنرل اسلم نے جنگ کو روایتی انداز سے نکال کر شہری گوریلا جنگ کی بنیاد رکھی،بی ایل اے کے سر مچاروں نے کوئٹہ شہر میں کچرے کے ڈبوں میں بمب نصب کر کے دشمن کو ضرب لگانا شروع کیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا کہ سڈک کے کسی کنارے میں بم نصب کرکے دشمنوں کو نشانہ بنایا جاتا،چند سال بعد خضدار کے آ زادی چوک پر قابض پاکستانی فوج کے ایک دستے کو نشانہ بنا یا گیا جس میں ساتھ اہلکار ہلاک ہوئے، اس حملے میں اسلم خود شامل تھے اور یہ حملہ انتہائی مربوط شہری گوریلا ئ تکنیک پر مبنی تھا،یہ حملہ بلوچستان کے شہروں میں کی جانے والی سب سے خطرناک اور انٹیلیجنس بیسڈ تھا۔
بلوچ لبریشن آ رمی کی طرف سے 2011 میں بلوچ مسلح جنگ کا سب سے ہیبت ناک حملہ پاکستان آ رمی پر کیا گیا جب اسلم کی قیادت میں بولان مارگٹ میں بی ایل اے نے قابض فوج کو تگنی کا ناچ نچا یا،اس حملے میں تقریباً ایک سو سرمچاروں نے شرکت کی اور آ رمی کے ہیڈکوارٹر سمیت پانچ چیک پوسٹوں پر بیک وقت حملہ آ ور ہوئے جس سے دشمن فوج کو بھاری مقدار میں جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس حملے کی شدت و جدت نے دشمن کو نفسیاتی شکست سے دو چار کر دیا، یہ حملہ اسلم کی نئی جنگی حکمت عملی اور تکنیک کا منہ بولتا ثبوت تھا جس کے بعد قابض فوج اپنے ہیڈکوارٹر ز کے اندر بھی غیر محفوظ تھے۔
جنگ میں شدت و جدت جنرل اسلم کی اولین ترجیح تھی اس لیئے مجید بر گیڈ کا قیام کر کے بلوچ فدائین کو دشمن کے گھر میں داخل ہوکر اسے دھول چٹا نے کی مشن کو بھی اسلم نے تنظیمی ساتھیوں کے ساتھ پایئہ تکمیل تک پہنچایا، لمہ یاسمین اس حوالے سے کہتی ہے کہ ایک دن میں استاد کے پاس گئ تو وہ ایک ڈاکومنٹری دیکھ رہے تھے جس میں کچھ نوجوان گوریلا سپاہی قابض فوج کے کیمپ کے اندر گھس کر اسے مار رہے تھے تو جنرل اسلم نے مجھ سے یہ کہا کہ وہ دن دور نہیں کہ ہم بلوچ بھی اپنی دشمن کے کیمپ میں گھس کر اسے ماریں گے، اور اس کے چند عرصے بعد فدا ئین کا سلسلہ شروع ہوا جس کا اسلم نے کئ سال پہلے منصوبہ بنایا تھا،اس سے یہ اخذ کی جاسکتی ہے کہ جنرل اسلم جنگ کی تمام تر ضرورتوں سے واقف تھے،جنگ میں افردی قوت کو استعمال کرنے کا طریقہ،کم وسائل میں زیادہ سے زیادہ جنگی فوائد اٹھانا اسلم ان تمام عوامل سے بخوبی واقف تھے۔
جنرل اسلم بلوچ جب بی ایل اے کے سربراہ تھے تو تب بھی وہ جنگوں میں فرنٹ سے لیڈ کرتے اور انتہائی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرتے اگر انہیں کوئی پیچھے ہٹنے کو کہتا تو وہ یہ کہتے کہ میں اپنی بندوق ہاتھوں میں تھام کر بیٹھوں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا ، یعنی وہ جنگوں میں اپنی سپاہیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اسلم کے سپاہی آ خری سانس اور بندوق کی آ خری گولی تک لڑتے،جب 2016 میں قابض فوج نے بولان میں بڑی پیمانے پر آ پریشن شروع کی تو جنرل اسلم بھی وہاں موجود تھے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دو بدو فوج سے لڑتے رہے،جسم پر گولی کھانے کے باوجود بھی اپنا مورچہ نہیں چھوڑا نہ ہی اپنی بندوق نیچے رکھی۔
آ ج بلوچ مسلح جنگ جدید دور کے عین تقاضوں کے مطابق جاری ہے،جنگ میں شہری نیٹ ورک، تنظیم کے مختلف ایلیٹ یونٹس،انٹیلیجنس کا موجود ہونا اور با اثر طریقے سے کام کرنا یہ تنظیم کی ترقی و مضبوطی کا ضامن ہے، روایتی جنگی طریقے یکسر تبدیل ہو چکے ہیں، نوجوان جنگی مہارتوں سے لیس ہے اور آ زادی کی یہ طویل سفر اب یہی بتا رہی ہے کہ منزل انتہائی قریب ہے، یہ سب جنرل اسلم کی قربانیوں اور پختہ نظریہ کی مرہون منت ہے۔
جب بی ایل اے ایک کٹھن دور سے گزر رہا تھا تو جنرل اسلم نے تنظیمی ساتھیوں کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیا بلکہ انہیں ہمت و جرات کے ساتھ مشن کو جاری رکھنے کی درس دی، تنظیمی ساتھیوں کی تربیت اس طرح سے کی کہ اسلم کے وہی سپاہی پختہ سوچ و فکر کے مالک بن کر آ ج دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ رہے ہیں۔
جنرل اسلم نے اپنی قربانیوں کے ذریعے بلوچ قوم کو ننگ و ناموس اور وطن کی عزت و حرمت پر مرنے مٹھنے کی تلقین کی، 25 دسمبر 2018 کو جنرل اسلم بلوچ اپنے پانچ ساتھیوں سمیت قندھار میں ایک خود کش حملے میں شہید ہوئے۔ جنرل اسلم ہم سے جسمانی طور پر تو جدا ہوئے لیکن ان کی سوچ و فکر اور نظریہ ہمیشہ ہر بلوچ کے دل میں زندہ رہے گی، آ ج بھی جنرل اسلم فکری طور پر ان پہاڑوں میں ہمارے ساتھ موجود ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔