بے بسی اور سکھ کا سانس – شفیق الرحمٰن ساسولی

99

” بے بسی اور سکھ کا سانس “

تحریر: شفیق الرحمٰن ساسولی

دی بلوچستان پوسٹ

ہماری بے بسی کی حد ہی اندازہ لگائیے، ہمارے پیاروں کی مسخ شدہ لاش یا ہڈیاں/ باقیات ہی مل جائیں تو سکھ کا سانس لیتے ہیں۔

بلوچستان میں جبری گمشدگی، فیک انکائونٹرز اور مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کے حوالے سے ہر دن کی الگ کہانی و طویل تفصیل ہوتی ہے۔ یہ صرف کل دو دسمبر 2024 کو ملنے والی چار مسخ شدہ لاشوں کی درد بھری سرسری کہانی ہیکہ: 26 ستمبر 2024 کو گھر سے حراست میں لیکر لاپتہ کئے جانے والے فقیر جان اور 17 فروری 2023 سے لاپتہ عیسی کی جب مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں تو عین انہی اوقات میں آٹھ سال قبل اغواء ہونے والے عابد حسین عمرانی اور مست خان لوٹانی کے باقیات کو پرچیوں پر درج ناموں کے ساتھ ضلع خضدار کے علاقہ زہری میں کسی مسجد کے قریب روڈ کنارے رکھ دیاجاتا ہے۔

آٹھ سال سے لاپتہ عابدحسین کے والد بیٹے کے لاش کو وصول کرکے کہتاہے: ” آج میرے بیٹے کی مسخ شدہ لاش آٹھ سال ایک مہینہ گزرنے کے بعد مجھے ملا، میں ان بندوں کا بے حد شکر گزار ہوں جنھوں نے میرے بیٹے کی لاش مجھے پہنچایا، میرے خاندان اتنے عرصے جو اذیت سے گزر رہے تھے آج سے سکھ کا سانس لیا۔

غلام حسین عمرانی کے الفاظ ہر ذی شعور کے دل کو دہلا دینے کیلئے کافی ہیں۔ عابدحسین کے لواحقین کی آٹھ سال کا طویل انتظار، ایک بے بسی کا سلسلہ، اور ایک ایسا انجام جو کسی بھی ذی شعور کو قبول نہیں ہوسکتا۔

عابد حسین، مست خان، فقیر جان اور عیسی بلوچ کے مسخ شدہ لاشیں ملنے کی خبر بلوچ کے سینے میں پیوند خنجر کو مزید گہرائی میں گھسانے کی عکاس ہے، بلوچ قوم کے دلوں پہ لگے سن زخموں پہ نمک پاشی ہے جو کبھی بھر نہیں سکتے

زخمی بلوچستان، جہاں ایک لاکھ کے قریب لوگ لاپتہ ہیں۔ جن میں پیر و جوان مرد بلکہ کئی بچے اور عوتیں شامل ہیں۔ ہر گھر میں ایک درد بھری کہانی ہے، ہر آنکھ میں اشکوں کا دریا، ہر دل میں ارمانوں کی دنیا، ہر جسم میں بے بس روح ہے۔ ماں باپ بہنیں بھائی بچے سبھی اپنے پیاروں کے انتظار میں سڑوکوں پہ سرگرداں ہیں۔ جہاں کوئی لاش گرنے کی خبر گرے تو ان میں سے ہرکوئی زندہ لاش بن کر گرجاتی ہے۔ ان کے دل میں ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ کب ان کے پیارے گھر واپس آئیں گے؟ بلوچستان کے ہزاروں ایسے بیٹے ہیں جن کے ماؤں کے خوابوں کو چھین کر لے جایاگیاہے اور کچھ کو نیم مردہ تو کچھ کی مسخ شدہ لاشیں تو کچھ کی ہڈیاں ہی موصول ہوچکی ہیں۔ جن کو اٹھایا گیاہے یا اب مزید اٹھایا جارہاہے، ایا وہ وہ زندہ لوٹ سکیں گے یا خدا نخواستہ زہری کے عابد حسین عمرانی و مست خان لوٹانی کی طرح ان کی لاشیں کہیں پڑی رہیں گی؟ یا آواران کے فقیر جان عیسی کے مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں ملیں گی؟ ہزاروں بوڑھے باپ بوڑھی مائیں بھائی بہن بچے اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں، تصاویر اٹھاکر احتجاج کرتے ہیں، لاٹھیاں کھاتی ہیں، حراساں ہوتے رہتے ہیں، کچھ ایسے غموں کے سبب مرجاتے تو کچھ زندہ لاش بن کر رہ جاتے ہیں، اس دن کی انتظار میں ہوتے ہیں کہ اپنے لاپتہ پیاروں کو دیکھ سکیں۔

صرف دو دسمبر کے چار لاشوں کی کہانی نہیں، بلکہ یہ ایک ایسے نظام کی ظالم پہلو ہے جو بلوچ قوم کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔ ایک نظام جو آٹھ دہائیوں انصاف کی ضمانت نہیں دے سکا۔ اغواء کار ایک نظام کا سہارا لیتے ہوئے کس جانب محو سفر ہیں وہ واضح ہے۔ ہم کس جانب محو سفر ہیں؟ ہمیں خود کو جنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔
ہم میں سے ہرفرد چاہے وہ کوئی نواب، سردار، میر، ٹکری، وڈیرہ، رئیس، ملک یا کسی بھی سطح کا قبائلی فرد۔ کوئی مولوی حافظ، پروفیسر، ڈاکٹر، وکیل کسی بھی سطح کا پروفیشنل ملازم، طالب علم، وزیر سرکاری نوکر، سیاسی کارکن یا عام فرد الغرض ہم سب جو یہاں صبح کو شام اور شام کو صبح کرتے ہیں، کیا واقعی ہم اپنا قومی ذمہ داری نبھارہے ہیں؟ کیا ہم وہی کررہے ہیں جو ہمارے آبائو اجداد نے کیا تھا، یا صرف سہہ رہے اور براہ راست و غیر براہ راست بلوچ نسل کش دژمن کا حامی و ساتھی بن رہے ہیں؟ کیا ہم اس معاشرے کی تعمیر میں دژمن کا بیگاری نہیں بن رہے جہاں ہر بلوچ کو اپنی جان و مال کی حفاظت کا خدشہ ہو؟ جہاں بے گناہ لوگوں کو اغوا کیا جاتا ہو، اور قتل کیا جاتا ہے؟ بلوچ قوم کی نسل کشی کی جاتی ہو؟

ہمیں بحیثیت قوم سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور حل تلاش کرنا ہوگا۔ ہمیں لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کے لیے کوششیں تیز کرنی ہوں گی۔ ہمیں انصاف کے لیے آواز اٹھانی ہوگی۔سب سے بڑھ کر ایک ایسے معاشرہ و سوچ کی تشکیل کرنی ہوگی کہ ہم میں سے ہر فرد یہ قبول نہ کرنے کی ہمت و جرات کرسکے جب اسے یا قوم کے کسی بھی فرد کو اذیت دی جارہی ہو۔

میں قطعا یہ نہیں کہتاکہ ہرفرد اٹھ کے بندوق اٹھائے اور لڑے، بس اتناکریں کہ جو پرامن آواز اٹھاتے ہیں انکے ساتھ شامل ہوجائو، اگر انکے ساتھ نہ سہی تو خود آگے آئو، وہ مظلومین آپ کے ساتھ شامل ہوجائیں گے بشرطیکہ صرف بلوچ بن کر آگے آئو جس کے پیچھے ماسوائے بلوچ بقاء کے کوئی اور مقصد نہ لائو۔۔

آئیے ہم سب مل کر ایک ایسے پرامن قومی معاشرے کی تشکیل کیلئے کردار ادا کریں جہاں ہر بلوچ کو عزت اور امن سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو۔ ہم آٹھ سال یا بیس سال بعد اپنے پیاروں کی لاش وصول کرکے انتظار کی اذیت سے چھٹکارہ پاتے ہوئے بے بسی والی سکھ کا سانس نہیں بلکہ ظلم کی سدباب کرتے ہوئے ہمیشہ کیلئے حقیقی سکھ کا سانس لے سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں