بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے پارٹی کے سینتیس واں یوم تاسیس پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج چوبیس دسمبر کو ہم بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے یومِ تاسیس کے موقع پر پارٹی، پارٹی قیادت کی دور اندیشی، بے مثال عزم و حوصلے اور قربانیوں کو کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ بی این ایم نے بلوچ قومی تحریک آزادی کو منظم کرنے، قومی شعور کو اجاگر کرنے اور بلوچ قومی آزادی کے لیے جس طرح ماضی میں کلیدی کردار کیا ہے، آج بھی انہی خطوط پر قومی آزادی کے حصول کے لیے کردار کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا بلوچ قومی تاریخ قربانیوں سے تاریخ ہے۔ جب بھی سرزمین، قومی بقا اور قومی تشخص کو خطرات درپیش ہوئے بلوچ قوم نے قربانی سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ زندہ قوموں کی طرح بلوچ ہمیشہ اپنے وطن کی آزادی اور قومی بقا کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہے۔ برطانوی سامراج کے ہاتھوں بلوچستان کی قبضہ و تقسیم سے لے کر 1948 میں پاکستانی قبضے تک، بلوچ قوم نے استعماری طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی ایک شاندار تاریخ رقم کی۔ 27 مارچ 1948 کو بلوچ سرزمین پر بندوق کی نوک پر پاکستان نے جس جبری قبضے کی بنیاد رکھی، وہ بلوچ عوام کی آزادی، شناخت اور وقار پر ایک کاری ضرب تھی۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بلوچ قوم نے نئے نوآبادی اور مغربی مفادات کے چوکیدار پاکستان کے خلاف پہلے دن سے مزاحمت کی شمع روشن کی۔ شہزادہ عبدالکریم بلوچ کی قیادت میں شروع ہونے والی مسلح مزاحمت نے اس تحریک کو ایک سمت فراہم کی جو آج تک مختلف نشیب و فراز کے باوجود جاری ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ نے اپنے قیام کے بعد اس تحریک کو مزید منظم کرنے اور اسے ایک قومی پلیٹ فارم مہیا کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
انہوں نے کہا بی این ایم کی بنیاد 24 دسمبر 1987 کو رکھی گئی، جب سینئر بلوچ سیاسی کیڈر نے بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ (بی این وائی ایم) کی تشکیل کی۔ 1989 میں اسے بلوچستان نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کا نام دیا گیا۔ تاہم بی این ایم کا سفر کبھی آسان نہیں رہا۔ پارٹی کو مختلف اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ 2003 میں جب سابقہ قیادت نے قومی تحریک اور پارٹی اساس، قومی آزادی سے انحراف کی پایہ تکیمل کے لیے ایک اور نام نہاد قوم پرست گروہ کے ہاتھوں پارٹی کو تھمانے کا فیصلہ کیا تو چیئرمین غلام محمد بلوچ نے بلوچ قومی کاز کے لیے ایک نئے عزم اور واضح نظریاتی خطوط کے ساتھ بلوچ نیشنل موومنٹ کو ازسرنو تشکیل دیا۔ 2004 کو اس نئے آغاز نے تحریک آزادی کو ایک واضح سمت دی، جس کا محور قومی آزادی، برابری اور انصاف کے اصولوں پر مبنی تھا۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بی این ایم کی قیادت نے ہمیشہ قربانی اور جدوجہد کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ واجہ غلام محمد بلوچ، لالہ منیر بلوچ، ڈاکٹر منان بلوچ، حاجی رزاق، استاد علی جان، صمد تگرانی، کماش نصیر کمالان، ساجد بلوچ، رزاق گل، ناکو خیربخش جیسے ہستیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اپنی لہو کے ذریعے پارٹی پلیٹ فارم سے تحریک کی شمع کو روشن رکھا۔ ان رہنماؤں کی شہادتوں نے بلوچ قوم کو اپنے قومی آزادی کے لیے لڑنے کا جذبہ اور حوصلہ دیا اور بی این ایم کے کارکنان کو واضح نظریاتی خطور پر گامزن رکھنے کے لیے مزید مستحکم کیا۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین غلام محمد بلوچ نے سابقہ قیادت کی انحراف، تحریک کی تسلسل میں خلل سے پیدا عوامی مایوسی کو امید میں تبدیل کرنے کیلئے سربکف ہوکر پاکستانی سامراج کے خلاف بلوچستان کے کونے کونے میں آزادی کا پیغام پہنچایا۔ انہیں یقین تھا کہ ایک بار جبری گمشدگی اور رہائی کے باوجود دشمن انہیں معاف نہیں کرے گا اور آزادی کی مانگ کی پاداش میں انہیں جانی نقصان پہنچائے گا لیکن انہوں نے واضح ادراک کے باوجود محاذ ایک دن بھی خالی نہیں چھوڑا اور بلآخر پاکستانی ریاست نے انہیں ساتھیون سمیت شہید کردیا۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بلوچ قومی تحریک میں بی این ایم نے مختلف صورتوں میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ پوری قیادت قتل ہوئی، تحریک کے صفوں میں پارٹی کے خلاف محاذ کھولا گیا، ساتھیوں کو پارٹی و تحریک سے بدظن کے لیے ایک تاریخی سائبر وار شروع کیا گیا لیکن بی این ایم کے مضبوط صفوں میں کہیں دراڑ نہ آسکی۔ چیئرمین غلام محمد کی شہادت کے بعد چیئرمین خلیل بلوچ نے پارٹی قیادت سنبھالی اور سیکرٹری جنرل شہید ڈاکٹر منان بلوچ اور باقی ساتھیوں کے ساتھ مل کر پارٹی اساس کی تحفظ کی۔ دشمن اور تحریک میں شامل جزوں کی جانب سے پیداکردہ مشکلات کا مقابلہ کیا اور پارٹی کو بحفاظت ایک جمہوری انداز میں نئی قیادت کو منتقل کیا۔ یہ قیادت کی ویژن اور بی این ایم کے سیاسی کلچر کا بین ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا بی این ایم کا مقصد ایک ایسا آزاد بلوچستان اور جمہوری بلوچستان ہے جہاں ہر فرد کو بلا تفریق جنس، رنگ، نسل، زبان، مذہب اور طبقہ انصاف، برابری اور آزادی حاصل ہو۔ 2010،2014 اور 2022 کے پارٹی مرکزی کونسل سیشن نے پارٹی کے سیاسی اور جمہوری کلچر کو مضبوط رکھنے اور نشوونما میں اہم کردار ادا کیا۔ بی این ایم نے نہ صرف بلوچستان بلکہ دنیا بھر میں موجود بلوچ عوام کو آزادی کا پیغام پہنچانے اور آزاد دنیا کے سامنے بلوچ قومی غلامی اور استحصال کا عکس واضح کرنے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے۔ بی این ایم اپنے قیادت، کیڈر اور کارکناں کی قربانیوں اور عوامی حمایت کی بدولت آج ایک مضبوط قومی پارٹی کے طور پر جانی جاتی ہے جو شعوری عمل اور بلند حوصلے کے ساتھ اپنی منزل کی جانب گامزن ہے۔
چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ بی این ایم کے یومِ تاسیس کے موقع پر ہم ان تمام شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس پارٹی أساس کی حفاظت کی، اور قومی تحریک میں نمایاں کردار کیا۔ آج ہم پاکستان کے ہاتھوں پندرہ سالوں سے جبری لاپتہ پارٹی کے مرکزی لیڈر ڈاکٹر دین محمد بلوچ اور غفور جان، دیگر کارکناں سمیت تمام جبری لاپتہ افراد کو یاد کرتے ہیں، انہیں خراج پیش کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج کی بہیمانہ تشدد انہیں توڑ نہ سکی اور وہ پاکستانی زندانوں میں بلوچ قومی آزادی کے لیے غیر انسانی تشدد سہہ رہے ہیں۔ ہم ان کارکنان کو سلام پیش کرتے ہیں جو دن رات جدوجہد میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جذبہ صادق اور عمل نیک اور واضح ہوتو منزل قریب ہے لیکن اس کے لیے ہمیں مزید قربانیوں، جدوجہد اور داخلی اتحاد کی ضرورت ہے۔ بی این ایم کا یہ پیغام ہے کہ ہم اپنی قومی آزادی کے مقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہر قدم پر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
آئیے، اس یومِ تاسیس پر عہد کریں کہ ہم شہداء کے مشن کو پورا کریں گے اور ایک آزاد، خودمختار اور انصاف پر مبنی بلوچستان کی تشکیل کے لیے اپنی جدوجہد کو مزید مستحکم کریں گے۔