بولان میڈیکل کالج اور ریاستی پالیسیاں – شاشان بلوچ

3

بولان میڈیکل کالج اور ریاستی پالیسیاں

تحریر: شاشان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم پر پاکستان کا ظلم اور جبر ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد بلوچ عوام کو ان کے حقوق، وسائل اور شعور سے محروم رکھنا ہے۔ بلوچستان، جو اپنی قدرتی دولت اور جغرافیائی اہمیت کے لیے مشہور ہے، دہائیوں سے ریاستی استحصال کا شکار رہا ہے۔ بلوچ عوام کو نہ صرف معاشی طور پر پسماندہ رکھا جا رہا ہے بلکہ تعلیم، صحت، اور دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ جبر کسی اتفاقی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم کوشش ہے جس کے تحت بلوچ قوم کو ایک محکوم اور مظلوم حیثیت میں رکھا جا رہا ہے۔

ریاست نے بلوچوں کے لیے تعلیم کو ایک خطرہ سمجھا ہے کیونکہ تعلیم شعور اور آزادی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی ادارے عملاً غیر فعال ہیں یا ان تک رسائی انتہائی محدود ہے۔ اسکولوں کی کمی، اساتذہ کی غیر موجودگی، اور بنیادی سہولیات کا فقدان بلوچ طلباء کو تعلیم سے محروم رکھنے کے لیے ریاستی پالیسی کے واضح مظاہر ہیں۔ بلوچستان میں ہاسٹلز کی بندش اور بلوچ طلباء پر پولیس کا جبر اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست شعوری طور پر انہیں تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بولان میڈیکل کالج (بی ایم سی) کوئٹہ میں حالیہ واقعات اس پالیسی کی کھلی مثال ہیں۔ بلوچ طلباء کو ہاسٹل سے بے دخل کرنا اور ان پر پولیس کے ذریعے لاٹھی چارج کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست نہ صرف ان کی تعلیم بلکہ ان کے وجود کو بھی خطرہ سمجھتی ہے۔ ہاسٹلز کی بندش کا مقصد بلوچ نوجوانوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھنا اور ان کے شعور کو دبانا ہے تاکہ وہ سماجی انصاف اور اپنے حقوق کی جدوجہد نہ کر سکیں۔

پاکستان نے نوآبادیاتی حکمت عملیوں کو اپناتے ہوئے بلوچ عوام کو تعلیمی نظام کے ذریعے زیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ نوآبادیاتی نظام کا ایک اہم حربہ تعلیم کو اس انداز میں قابو میں رکھنا ہے کہ مظلوم اقوام علم کے ذریعے اپنے حقوق کا ادراک نہ کر سکیں۔ فرانز فینن نے اپنی کتاب The Wretched of the Earth میں اس جبر کو واضح کیا ہے کہ کس طرح نوآباد کار تعلیم کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ محکوم اقوام کو شعور سے محروم رکھا جا سکے۔ پاکستان بھی یہی حکمت عملی بلوچ عوام پر اپنائے ہوئے ہے، جہاں اسکولوں اور کالجوں کی بندش، وسائل کی کمی، اور طلباء کو ہراساں کرنے کی پالیسی کا مقصد انہیں تعلیم سے محروم کرنا ہے۔

بلوچ قوم پر جبر کی یہ پالیسی نہ صرف تعلیم بلکہ ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔ معدنی وسائل سے لے کر زمینوں تک، بلوچستان کے ہر شعبے کو لوٹا جا رہا ہے، اور بلوچ عوام کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ریاستی بیانیہ بلوچ عوام کو “دوسرے درجے” کے شہری کے طور پر پیش کرتا ہے تاکہ ان کے حقوق اور جدوجہد کو غیر قانونی اور غیر ضروری ثابت کیا جا سکے۔

یہ صورتحال صرف مظلومیت کی نہیں بلکہ ریاست کی جانب سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کی عکاسی ہے۔ تعلیم سے محرومی بلوچ عوام کو شعوری طور پر محکوم رکھنے کی کوشش ہے۔ پالو فریرے اپنی کتاب Pedagogy of the Oppressed میں بیان کرتے ہیں کہ تعلیم آزادی اور خودمختاری کا پہلا قدم ہے۔ لیکن جب ایک قوم کو اس حق سے محروم کیا جاتا ہے، تو اس کا مقصد اس کے ذہنی اور سماجی ڈھانچے کو غلام بنانا ہوتا ہے۔

ریاستی جبر کے خلاف بلوچ قوم کی جدوجہد یہ ثابت کرتی ہے کہ تعلیم اور شعور کو دبانے کے باوجود بلوچ عوام اپنی شناخت اور حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں۔ تعلیم کا حق ہر انسان کا بنیادی حق ہے، اور بلوچ عوام کی اس جدوجہد کو دبانا ریاست کے نوآبادیاتی رویے کی واضح مثال ہے۔ بلوچ طلباء پر جبر نہ صرف ان کے تعلیمی مستقبل کو تباہ کر رہا ہے بلکہ اس بات کو بھی ظاہر کر رہا ہے کہ ریاست انہیں ایک آزاد اور باشعور قوم کے طور پر دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں