بلوچی ادب کا مزاحمتی بیانہ
تحریر: سعید یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ مزاحمتی ادب ارتقائی سفر عبور کرتے ہوئے اب انقلاب کی نوید بن چکی ہے. بہت سے نوجوان اور بزرگ جن کی شعری و نثری خیالات میں مزاحمتی ادب کا رنگ نظر آتاہے. سوشل میڈیا میں بکھرے چاروں طرف بلوچ مزاحمتی ادب ریاستی جبر تسلط کے خلاف ایک مکمل تناظر رکھتاہے.
ابھرتے ہوئے نوجوان لکھاری شاعر ادیب جن کے فن پارے جن کے اشعار اور جن کے کلام نے نو آبادیاتی نظام اور نو آبادیاتی جعلی ادب کی ریڑھ کی ہڈی میں ایسا ,زخم لگایاہے جو کالونائزر کے نروس سسٹم اور اعصاب کو ہیجان میں مبتلا کرچکا ہے۔ آج کا بلوچ ادیب دانشور شاعر لکھاری اکثریت میں اپنی وطنی تحریک کے ہم قدم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے قبل کے دہائیوں میں کسی حدتک ہمارا ادب زلف و بلبل کے ایک مخصوص دائرہ میں گھومتا نظر آتا تھا۔ غیر معیاری شاعری اور ادب کی بھر مار تھی۔ ریاستی وظیفہ خور اور ٹیسٹ ٹیوب ادیبوں کا جھمگٹا تھا۔ جو امپریلزم کے قصیدے گاتے تھے۔ وظیفہ اور ایوارڈ لیتے تھے۔
اپنی ہیروں اوراسلاف کو چھوڑ کر نو آبادیاتی نظام کے پیدا کردہ مصنوعی و جعلی شخصیات کے گن گاتے تھے۔ ان کی ایک محدود کھیپ اب بھی موجود ہے؛ لیکن وہ ادیب کہنے کے لائق نہیں بلکہ ان کا پیر و مرشد مسلط شدہ ریاست ہے. لیکن اب بلوچ جن کی تربیت و نشود نماء مزاحمت کے سائبانںو فلسفہ میں ہوئی ہیں، وہ مزاحمت ہی میں پھلے بھڑے ہیں۔ وہ ریاست کے دہشت اور قہر کا عینی شاید رہے ہیں۔ انہیں مائوں کے بہتے آنسوں اور بہنوں کے چیخ و فریاد کی گونج نے ایک ایسےمقام پر لاکھڑا کردیاہے ،کہ اگر وہ غیر جانبدار رہے تو وہ پھر منافق ہی رہتے ہیں۔ انہیں فریق بننا چاہیے۔ اپنی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
یہ غلط ہے کہ ادیب یا شاعر نیوٹرل ہوتاہے۔ یا ان کا کوئی وطن اور قوم نہیں ہوتا، یا وہ کائناتی یا آفاقی ہوتاہے۔ ایسا نہیں ادیب کوسب سے پہلے اپنی سماج اپنی مٹی اوراپنی خاک سے رشتہ جوڑنا ہوتا ہے۔ اپنی سماجی ابتری اور ظلم و زیادتیوں کو بیان کرنا ہوتاہے، کہ ان کے اپنے عوام کے ساتھ کیا ظلم ہورہاہے۔ جب وہ اپنی سماج سے لاتعلق یا بیگانہ بن جاتاہے۔ تو وہ ادیب ہی نہیں رہتا ایک ٹیسٹ ٹیوب یا ریاستی نرسری کا پیداوار ہوتاہے۔
اسے اپنی تاریخ، وطن، جفرافیہ اور سرحدوں سے منسلک ہونا چاہیے۔ خونی اور مٹی کے رشتوں کا احساس کرنا چاہئے۔ اور جس دھرتی کےامرت دھارے سےوہ پھلے بڑھے ہیں۔ اس سے تجدید وفاداری کرنا چاہیے۔ ایسے بہت سے ادیب آج بھی ہے جو ادب کے نام پر بوجھ ہے ۔جو اپنی اوپر ظلم پر خاموش، اور فلسطین اور کشمیر کے لے لکھتے ہیں۔
اصل میں انہیں جب اپنے دکھوں سے واسطہ نہیں تو دوسروں کے دکھ میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں۔یہ اداکاری ہے، یہ مکاری ہے۔محض ریاست اور کالونائز کے بیانیہ اور وظیفہ وصولی کے لیے لکھتے ہیں۔ پیسہ کے لیے لکھتے ہیں۔ پی آر او اور چیک کے لیے لکھتے ہیں۔ایسے ذہنی عیاش ادیبوں کا بلوچ گلزمین سے کوئی تعلق نہیں۔
اگر چہ وہ نام کے بلوچ ہے ۔ لیکن بلوچ ہونے کا ایک پیمانہ ہے، ایک نظریہ ہے ۔اور وہ نظریہ اپنی آزادی اور خود مختیاری کاہے ۔اپنی تاریخ، زبان، تہزیب، ثقافت اور مملکت کا ہے۔ بلوچ کو کس چیز کی کمی ہے۔ قدرت نے اسے وہ سب کچھ دیاہے ۔جو ایک طاقت ور اور سپر پاور ملک کے پاس ہوتاہے۔ اس کے پاس وسیع جغرافیہ ہے ۔شاندار تاریخ ہے۔ زرخیز زمین ہے ۔پہاڑ معدنیات اور سونے کے ڈھیر ہے۔سمندر ہے۔ اس کا خطہ لینڈ لاک نہیں۔ فضائی زمینی اور بحری راستے ہیں جو پوری دنیا سے ان کو باہم جوڑتے ہین۔ وسیع سرحدیں ہیں۔ سونے کے ڈھیر پر بھیٹے جب کوئی ادیب دستر خوان کے بچھے کچھے ہڈیوں کے حصول کے لکھتا ہے، تو انہیں شرم آنا چاہیے۔
۔خیر آگے بڑھ کر ہم اپنی موضوع پر آتے ہیں۔ مزاحمتی ادب کا خمیر بھی زندہ سماج سے اٹھتا ہے۔ مردہ سماجیں ادبی طور پر بانجھ ہوتے ہیں۔ ان کی کھوکھ میں تخلیق نہیں ہوتی۔ زندہ اور آزادی خواہ سماج کے ادیب اور لکھنے والے اپنی اوپر جبر و بربریت کے پردہ چاک کرتےہیں۔ خود کے لیے لکھتے ہیں۔ اپنی اوپر ہونے والے جارحیت اور تسلط کے خلاف لکھتے ہیں۔ اپنی مائوں کے درد بیان کرتے ہیں۔ اپنے بہنوں کے آنسو پونچھتے ہیں۔ اپنی بزرگوں کی بزگی و لاچاری کو قلم میں قید کرتے ہیں ۔اور انہی درد کو سمیٹ کر شاعری کا زبان دیتے ہیں ۔
اس لیے ادب براہ راست اپنے عہداور وطن پر محسوس کئے گئے ظلم کو آشکار کرنے کا نام ہے۔ آج ہم جس ادب کو عالمی ادب کہتے ہیں، وہ عالمی ادب کا مقام کیسے حاصل کیا ؟ اس لیے کہ وہ اپنے سماج پر ہونے والے جبر کی نشان دہی کی۔ اپنے عہد اور زمانے کے ظالم اور امپریلسٹ کے خلاف لکھتے رہے۔قلم کو خون میں ڈبودیئے لفظیں لال اور سرخ کئے۔
کیا دنیا کے نامور ادیب جیسے روسی ادیب پشکن کی نثری تحریریں،دوستوفسکی کی ناولز اور کتابیں ، یا لیوٹالسٹائی جیسے دانشور ،میخائل شولوخوف اورمیخائل بلگاکوف جیسے ناول نگاراور اکسا کوف جیسے روسی ادیب میکسم گورکی کے ناول اور ڈرامےیا ژاں ژاک روسو جیسے فلسفی، یا جرمن فلاسفر امانوئل کانٹ شلائر ماخر اور جان لاک جیسے فلسفی معتبر ادیبوں اور فلاسفرز اپنی اپنی سماج کی درد بھری روئیدا د بیان نہیں کی؟
سجاد حارث نے کہا تھا،’’ قوموں کی زندگی کی تعمیر کرنا فنکاروں کا پہلا اور بنیادی فرض ہے۔ اور یہ فرض ظلم اور بدصورتی کے تمام آثار مٹائے بغیر انجام نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ بلوچ سماج ایک زندہ سماج ہے ۔ہزاروں سال کی تاریخ رکھتاہے۔ ترکی سے لے کر ہندوستان کی سرحدوں تک کی پھیلی ہوئی اس مملکت کی تہذیب، تاریخ اور زبان ہے۔ ہم عرب سے بھی قدیم ہے۔ ہماری زبان بھی عربی زبان سے بھی قدیم ہے۔ ہم مہر گڑھ کے تہزیب کے وارث ہیں۔
آج ہمیں فارسی پڑھائی جاتی ہے۔ عربی پڑھائی جاتی ہے۔ اردو اور انگریزی پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن اپنی زبان کا کوئی اسکول نہیں ۔کوئی مدرسہ یا مکتب نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم ہمارا خطہ ہمیشہ حملہ آوروں کی نشانہ پر رہا ہے۔ لیکن ہم نے مزاحمت کی ہے۔ ہماری مزاحمتی ادب کا ذخیرہ موجود ہے۔ مزاحمتی ادب کے جس سنت پر آج بلوچ نوجوان عمل پیرا ہیں، یقینا ایک روشن صبح۔ممکنہ طلوع گی۔ ایک وقت ہوگا کہ دنیا ہماری لٹریچر کو پڑھےگا۔ ہماری نگارشات کی تراجم ہوں گے ۔بین الاقوامی ادب کے صفحہ میں کھڑے ہوکراس خلاء کو پر کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔دوسرے اقوام رابطہ کاری کے لے ہماں زبان سیکھیں گے۔
لیکن مشروط یہ ہے کہ اپنی فکشن ،اپنی ناول اپنی ادبی و نثری تصنیفات اور شاعری میں پہلی ترجیح اپنے افتادگان خاک قوم کو دیں گے۔ اپنے شہیدوں کی کہانیاں بیان کریں گے۔ اپنی ہیروں کی آپ بیتی اور سوانح حیات لکھیں گے ۔
ادب کا کسی بھی سماج سے گہرا تعلق ہوتاہے۔ ادب کسی بھی تحریک کو ایندھن دیتاہے۔ وہ تحریکوں کا آکسیجن اور سانس ہوتاہے۔ ادب ایک زندہ اور متحرک صنف ہے۔ جو سماج کی خون آلود گہرائیوں سے جنم لیتی ہے ۔اور اس کا مقصد ظلم و جبر و جنگی جارحیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ ادب اپنے عہد کی صداقتوں، مسائل، معاملات ،واقعات ،المیات تجربات اور احساسات کا موضوع اور معمار ہوتاہے ۔
اگر ادیب خود کو بھول کر حملہ آور کی تعریف کرتاہے، تو پھر اسے ادیب کہنا ادبی صنف کی توہین ہے۔ یہ عہد و زمانہ کی اذیتوں کی گواہی دینے کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی بیان کرتاہے۔ جو وہ دیکھتا ہے ، اس میں اس کی سماج کی حقانیت، اس کے نظریات اس کے جذبات، اس کے حوصلہ اس کی بہادری اس کا فلسفہ، تاریخ اور تہذیب پوشیدہ ہوتاہے ۔اور یہ اس کی کل قومی جدوجہد کی عکاس ہوتی ہے۔
ادب صرف تفریحی یا رومانوی ذریعہ نہیں ہوتا، بلکہ ایک فکری و مزاحمتی وسیلہ بھی ہوتا ہے۔ جو اپنے لوگوں کو اپنے اولس کو ان حقائق کا شعور دیتا ہے۔جو وہ بیت رہاہوتاہے۔
بلا مبالغہ کہ سکتا ہوں کہ اب نئے نوجوان
“نودر بر،” اس خلاء (ویکیوم)کو کسی حد تک پر کررہے ہیں .اپنے تخلیقات اور آرٹ سے، اور تخلیقی اور معیاری ادب تخلیق کررہے ہیں۔ اور ان نا انصافیوں اور جبر کی پیش کاری کررہے ہیں ۔جس کی تاریخ دنوں کی نہیں، سالوں کی نہیں، دہائیوں کی نہیں صدیوں کی ہے ۔ان دہائیوں میں ،ان صدیوں میں ہمارے آس پاس ظلم و جبر نا انصافی اور تسلط کے ہزاروں کہانیاں ہم سے پیوند ہے۔ جبری گمشدگیوں کے داستانیں، مسخ لاشوں کے حسین چہرے انکاؤنٹر میں مارے گئےشہیدوں کی روئیداد یں ہیں۔ جو ہمارے تخلیق کردہ ادب کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اور بننا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات میں مزاحمتی اظہاریہ ہی ادب کی اولین تخلیق ہے۔ ادب محض و زلف و بلبل اور ناز ادا کے لیے وجود میں نہیں آیا ۔اد ب کا وجود سب سے پہلے مزاحمت کی شکل میں جنم لیا ۔لیکن نو آبادیاتی طاقتوں ، سامراجیت اور استعماروں نے ادب کو درباری بنایا ۔ تاریخ کو مسخ کیا گیا ۔ہماری ہی اپنی تاریخ کو انگریزی فوجیوں نے لکھے۔ اور ہم اسی تاریخ کو پڑھتے پڑھتے کھبی آرین کھبی سامی کھبی عرب سے رشتہ جوڑے رکھے ۔بلوچ خود ایک قوم و نسل ہے۔ ریاستی مردم شماری کے جعلی دعووں کے برعکس بلوچ کی آبادی کروڑوں میں ہیں۔ سندھ کی نو آبادی ریاست کی ساٹھ فیصد آبادی بلوچ قوم پر مشتمل ہے۔ مغربی بلوچستان شمالی بلوچستان اور دنیا کے کونے کونے میں بلوچ آباد ہیں ۔ بلوچ عرب سلجوقی آرین یا دراوڑی نہیں
مجموعی طور پر ادب کو ایک بند گلی میں شاہی قصیدہ گوئیوں اور عشقیہ اور انار کلی جذبات کی حدتک محدود رکھا گیا۔ حالانکہ وطن کے عشق سے بڑا کوئی عشق نہیں ۔مٹی کے بوسہ سے بڑا کوئی بوسہ نہیں۔ خاک و گلزمین کی سجدہ سے بڑا کوئی سجدہ نہیں جب ہم سجدہ کرتے ہیں تو سب سے اول مٹی کا بوسہ اپنی لمس میں ناچ رہا ہوتاہے۔ وطن کی عشق کی اس کی جمالیات کی اس کی حسن سے بڑھ کر اورکون اتنا حسین ہوسکتاہے۔ مزاحمت حسین ہے۔ خاردار ہے، پل صراطی زندگی ہے، تکلیفات ہے، مشکلات کے پہاڑ ہیں۔
لیکن فناہ میں آزادی ہے۔ بیج خود کو فناکرکے تن آور درخت بن جاتاہے اور جس کے سائے اور پھل کا لطف اٹھا یاجاتاہے۔ مزاحمت میں آزادی ہے ۔قربانی میں آزادی ہے۔ قربانی محض فلسفہ نہیں محض علامتی اظہاریہ نہیں ، نمائشی تقریر نہیں بلکہ قر بانی قربان گاہ میں قربان ہونے کا نام ہے۔
میں غلط نہ ہوں شاید ،مزاحمتی ادب’ ادب کا خالق ہے۔ جو سماج کو انفرادی اور اجتماعی طور پر متحرک رکھتاہے ۔جو انصاف امن اور آزادی کا پروانہ ہے۔ عمومی معنوں میں ادب ہوتاہی مزاحمتی ہے۔ یہ ایک تحریری جدوجہد ہوتاہے نیویارک کے ایک مشہور ادیب باربرا ہارلو” اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے کہ “مزاحمتی ادب آرٹ کا ایک دائرہ کار ہے، جو تحریکوں کو مزاحمتی کہانیوں کوباہم مکالمہ کرنے اور انہیں تاریخی یاداشتوں میں محفوظ بنانے کا سہولت دیتاہے” اس میں کوئی شک نہیں کہ مزاحمتی ادب جذباتی جمالیاتی اور غیر منطقی نہیں ہوتا۔ بلکہ نا انصافیوں ظلم و بربریت کی حسیات رکھتے ہوئے سوچ اور احساسات کو قریب لاکر ایک سائنٹیفک بندھن میں پیوست کرتاہے۔
اب میں سمجھتا ہوں، کے ہمارے بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہمارے نسل ۔بادشاہوں ،حملہ آوروں، نو آبادیاتی زور آوروں، لعل در کے من گھڑت اور دل بہلانے والے قصوں ۔جگتی مجلسوں، عجیب و غریب مہمات ،بھوت پری جنات کے قصوں ،تاج محلات ،ناکامی عشق، غدار سردار و نواب اور رئس زادوں، درباریوں اور دیوؤں کے قصہ کہانیوں،الہ دین کے جادوئی چراغ جیسے غیر سائنسی اور غیر فطری تخیلات،توہمات کے چکر میں رہنے کے بجائے، اپنی شہداء کی بہادری، اپنی غازیوں، جانثاروں اور اپنی ماں بہنوں اور”نودر بروں،” کی مزاحمتی کہانیاں پڑھیں گے.
ان کے ناولوں, افسانوں اور نثری تحاریر، شعری تخلیقات میں اپنے ہیرئوں کی یاداشتیں، یادگاریں، کردار و عمل اور جدوجہد کے کہانیاں ملیں گے۔ بہت خوبصورت ہوگا یہ لٹریچر جب دوسرے غلام قومیں انہیں پڑھ کر ان کی مثالیں دیں گے ۔ان کی تقلید کریں گے ۔ان کے اقوال دہرائیں گے۔ ان کی تکنیک سائنس ۔ تجربات ،تجزیات ،لائحہ عمل ثابت قدمی ،جند ندری اور تحریک کی خدوخال اور اثرات سے واقف ہوں گے۔ ہمارا ادب جب اس مقام پر پہنچے گا تو یہ عالمی ادب میں اپنا حصہ ادا کرسکے گا۔
ایسا ادیب یا شاعر جو اپنی فکر کو قومی سماجی سیاسی و مزاحمتی تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا ہے،تو اس کی تخلیقات امید حوصلہ اور جرات کے جنم استان ہوں گے ۔
اگر معلوم تاریخ کی کھوج لگائے تو ملا مزار کی شاعری جس میں اس نے ان سرداروں کے انگریز ی تابعداری کا پردہ چاک کیا، جو لاٹ کی بھگی کھینچ رہے تھے ۔ہمارے عہد کے بہت سے ادیب دانشور مؤرخ جن مین صباء دشتیاری مبارک قاضی، ڈاکٹر فاروق بلوچ ،۔منظور بلوچ، حمید عزیز آبادی ،رحمت شاہین ،۔شہید علی شیر کرد ، نوشین قمبرانی ،یوسف عجب بلوچ ،منتظر بلوچ ،خواجہ حبیبو ،مزمل جان، شبیر آجو، یا پھر اس سے ماقبل دہائیوں میں یوسف عزیز مگسی۔ محمد حسین عنقاء۔عبد العزیز کرد،کریم امن شورش ، آغا وہاب شاہ دلسوز، نادر قمبرانی، ۔گل خان نصیر، جیسے اور بہت سے قد آور لوگ شامل ہیں۔
لیکن تحریر کی طوالت سے بچنے کے لے ان کے نام یہاں فردا فردا بیان نہیں کرسکتا۔
یا دنیا میں سب سے قدیم تہذیب سومیریا کا مجبورانسان کا درد بھرا گیت ہو یا عہد فرعونوں کے ادوار میں قدیم مصر میں لگان کے ہاتھوں بے بس کسان کا نوحہ ہو ۔یا قدیم و جدید ہند میں یونانی و انگریزی فوجی بربریت کے خلاف کسی عام ہندوستانی کا مزاحمتی نعرہ ہو۔ یا لال پرشاد بلسم و ساحر لدھیانوی کے گیت ہو۔ یا یونان میں کسی غلام کا اپنے آقا کے خلاف اشعار ہو۔ یا الجزائر کی آزادی کے لیے فرانز فینن کا لکھا ہوا تصنیف ہو۔ یا جاگیرداری عہد کے یورپ کی کسی مجبور دہقان کی جاگیردار ی ظلم کے خلاف شاعری ہو۔ یا بھگت سنگھ کی تحریریں ہو، یا منٹو کے افسانے ہو یا سندھو دیش کے ایاز سہیل کی شاعری ہو، جی ایم سید کے فرمودات ہو ،یا بلوچ مدرسہ فکر اور فلاسفر بابا مری کے تعلیمات ہو ۔شہید غلام محمد کے سقوط بولان اور کل زندگی کا جدوجہد اور تعلیمات ہو ۔ اگر سچ پوچھا جائے تو ایسا ادب جو حقیقت پسندی پر مبنی ہوگا تو ایسا ادب قومی تحریکون کے لئے معاون با اثر اور متحرک ثابت ہو گا
۔یہاں اختتامیہ میں سارتر کے شاندار الفاظ کو قلمبند کرتا ہوں کہ” ادیب کا قلم ہی اس کا ہتھیار ہوتاہے،” ادب در اصل کثیر الجہتی قومی جدوجہد کا فعال عضو ہوتاہے۔جب ہمارا ادیب ہی تحریک کے ساتھ ہم گام ہوگا ،تب ہم اس ڈسپوزیبل غلامی کے کلچر سے نجات حاصل کریں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں