بلوچستان کا ابراہیم: استاد اسلم بلوچ – سروان سندھی

136

بلوچستان کا ابراہیم: استاد اسلم بلوچ

تحریر: سروان سندھی

( 25-دسمبر شہید استاد اسلم بلوچ کی چھٹی برسی کے مناسبت س )

جیسے عرب تاریخ کے مطابق خدا کے حکم پر حضرت ابراہیم نے اپنی سب سے پیاری چیز کی شکل میں، خدا کی راہ میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو قربان کرنے کا ارادا کیا بلکل ایسے ہی بلوچستان کی سرزمین میں جنم لینے والے استاد اسلم بلوچ نے اپنی دھرتی ماں کے حکم پے اپنے نوجوان بیٹے ریحان بلوچ کو سینے سے بم باندھ کر دشمن (چائینیز انجینیئرس کی بس) کے اوپر حملہ کرنے کے لئے بھیجا۔ جس میں ریحان بلوچ کامیاب ہوئے اور دشمن کو جہنم واصل کیا۔ شہید استاد اسلم بلوچ کے اس کارنامے نے ان کے اپنے ہی الفاظ کو سچ ثابت کیا کہ “ہم بلوچستان کی آزادی کے لئے ہر حد تک جدوجہد اور قربانی کے لئے تیار ہیں”.

استاد اسلم بلوچ، بلوچستان کی تاریخ کے وہ سنہری باب ہیں، جس کو پڑہتے بلوچستان کی آنے والی نسلیں اپنی آنکھوں میں بے اختیار نمی اور ہونٹوں پے فاتحانہ مسکراہٹ کو روک نہیں پائینگی۔ کیوں کہ بلوچ قومی تحریکِ آزادی میں استاد اسلم بلوچ کا وجود دشمن پاکستانی ریاست کی نام نہاد نمبر ون آرمی کے اوپر نفسیاتی طور پے حاوی تھا۔ دشمن پاکستانی ریاست کی نالائق، ناکارہ اور ناپاک فوج اپنے کرنل اور جرنیلوں پے مظلوم اقوام کی لوٹی ہوٹی مال ملکیت کا بہت بڑا حصہ خرچ کرنے کے باوجود بھی محکوموں کے ایک استاد اسلم بلوچ کے پاؤں جیسا بھی بھادر فوجی کمانڈر پیدا نہیں کر پائی، اس سے محکوم اقوام کے نوجوانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ قابض چاہے کتنی بھی کوشش کر لے لیکن مظلوم کے سینے میں موجود بھادر دل و جگر جیسے اعضاء کروڑوں روپئے خرچ کرنے کے باوجود بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ وطن کے لئے لڑنے اور ماہانا تنخواہ کے لئے لڑنے میں واضح فرق ہوتا ہے۔

استاد اسلم بلوچ کے بلوچ قومی تحریک کے لئے ادا کردہ کردار کے ساتھ الفاظ کی صورت میں انصاف کرنا قریب ناممکن ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان میں قید تمام محکوم اقوام کے ہر فرد کو جس دن استاد اسلم بلوچ کی اپنے وطن کے ساتھ کمٹمنٹ، جدوجہد اور قربانی سمجھ میں آگئی، وہ دن اس قابض ریاست کے تابوت میں آخری کیل کی مانند ہوگا۔

استاد اسلم بلوچ بلکل ایک حقیقی انقلابی تھے۔ بلوچ قومی تحریکِ آزادی میں استاد اسلم بلوچ کے کردار کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ جیسے استاد کو اپنی جدوجہد کے شروع دن سے لیکر ان کے یومِ شہادت تک اپنے ہر ایک لفظ اور عمل کی اہمیت کا بھرپور اندازہ تھا۔ ان کی تمام زندگی اپنے وطن کی آزادی اور دشمن کو ہر صورت کالی ضرب لگانے کے فلسفے پر حرف بہ حرف قائم تھی۔

بالخصوص بلوچستان اور بلعموم اس برِصغیر کی تاریخ میں استاد اسلم بلوچ جیسے وطن کے ساتھ کمیٹیڈ، بھادری، قربانی اور ذہنی پختگی جیسی اعلیٰ خصوصیات رکھنے والا کردار ملنا محال ہے۔ بلوچستان اور سندھ کا آنے والا نسل خوش قسمت ہے، کیوں کہ وہ اب اپنی انقلابی تربیت میں شہید استاد اسلم بلوچ کی کمٹمنٹ اور بھادری کے قصے پڑہیں گے۔ ہم تمام انقلابی مزاحمتی جہد کار اس بات سے پر امید ہیں کہ جو نسل شہید استاد اسلم بلوچ کی جدوجہد اور قربانی کے باب پڑہتے بڑا ہوگا اس نسل کے سامنے پاکستان کی ناپاک ریاست اور تنخواہ دار فوجی ایسے اپنے گھٹنے ٹیک دیں گے جیسے انہوں نے بنگلادیش میں کیا تھا۔

شہید استاد اسلم بلوچ جتنے اہم بلوچستان کے لئے ہیں، اتنے ہی وہ قابلِ احترام سندھ کے انقلابیوں کے قریب بھی ہیں کیوں کہ شہید استاد اسلم بلوچ اور ایس۔آر۔اے سربراہ اور ہمارے شفیق انقلابی استاد سید اصغر شاہ کے درمیان 2002ع سے لیکر ان کی شہادت تک بہترین تعلقات رہے۔ جس توسط سے شہید استاد اسلم بلوچ سندھ کی قومی تحریکِ آزادی بالخصوص مزاحمتی تحریک کے لئے بھی ایک مددگار، ساتھی اور رہنما کا کردار ادا کرتے رہے۔ بلکل اسی طرح جیسے کوئی سندھ وطن کا حلالی اور فرمانبردار فرزند اپنے وطن سندھ کے لئے کرتا۔ شہید استاد اسلم بلوچ کا سندھ کی قومی تحریکِ آزادی میں بھی مخلصانہ کردار شامل ہے جو کہ تاریخ کا ایک خوبصورت ترین سچ ہے کہ کیسے ایک مظلوم قوم اور مزاحمت کا حقیقی انقلابی رہنما دوسری مظلوم قوم کی مزاحمتی جدوجہد کا ساتھی اور مددگار بنتا ہے۔ برادر محکوم سندھی قوم کے لئے استاد اسلم بلوچ کا ادا کیا ہوا یہ کردار سائیں جی۔ایم سید کے فکر و فلسفے میں موجود نقطے “آزادیِ اقوام” کے عین مطابق ہے۔

ویسے تو بلوچستان کی آزادی کے لئے جاری جدوجہد میں استاد اسلم بلوچ کا مکمل کردار نمایاں اور خاص اہمیت کا حامل ہے لیکن جس طریقے اور کمال حکمت عملی کے ساتھ شہید استاد اسلم بلوچ نے بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی فیصلا سازی کے اختیار بلوچ سرداروں اور نوابوں کے ہاتھوں سے نکال کر مڈل اور لوئر کلاس بلوچ کے ہاتھوں میں دئیے، شہید استاد اسلم بلوچ کے اس عمل نے بلوچ قومی تحریکِ آزادی کو ایک نئیں جلا بخشی۔ جیسے ہی بلوچستان کے وسائل سے مالامال سرزمین کے اوپر پاکستان اور چائنہ کی گٹھجوڑ کے زریعے غلامی اور ظلم کے نئے بادل نمودار ہوئے شہید استاد اسلم بلوچ اور ان کی مکمل ہم آھنگ ٹیم نے اپنی دور اندیشی اور کمال انقلابی مہارت سے بلوچ قومی تحریکِ آزادی میں اہم بنیادی تبدیلیاں کیں اور اس کے امیون سسٹم (Immune system) کو اس حد تک مضبوط بنا دیا کہ پاکستانی ریاست اور چائنہ کا کسی قسم کا جوائنٹ وینچر بھی اس قومی تحریکِ آزادی کو کچل نہیں سکتا۔
شہید استاد اسلم بلوچ اور دیگر ساتھیوں سنگت کریم مری شہید، سنگت تاج محمد شہید، سنگت اختر بلوچ شہید، سنگت فرید بلوچ شہید اور سنگت صادق بلوچ شہید کے اوپر قابض ریاست کا بزدلانہ حملہ اس بات کا واضح مثال ہے کہ اب بلوچ مزاحمتی تحریک اس قابض ریاست کے مکمل مد مقابل ہو چکی ہے اور اب بزدل ریاست اپنے آخری دن گن رہی ہے۔ شہید استاد اسلم بلوچ کے اوپر بزدلانہ حملہ کر کے پاکستانی فوج نے یہ گماں کر لیا تھا کہ اس حملے کے وسیلے بلوچ قومی تحریکِ آزادی کو خاموش یا ختم کیا جا سکتا ہے لیکن وقت نے ثابت کردیا ہے کہ اس ریاست کے لئے زندہ استاد اسلم بلوچ سے زیادہ شہید استاد اسلم بلوچ مزید خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔

استاد اسلم بلوچ بلوچستان کی تاریخ کے وہ انقلابی مزاحمت کار ہیں جو اپنی زندگی میں تو دشمن کے اوپر نفسیاتی طور پر حاوی تھے ہی لیکن اپنی شہادت کے بعد بھی وہ ایک اسلم بلوچ ہر بلوچ نوجوان کی آنکھوں میں سما گیا ہے اور دشمن پاکستانی ریاست کے لئے دائمی خوف و حراس کے مضبوط بنیاد ڈال گئے ہیں۔ جو خوف اب بلوچستان کی مکمل آزادی تک پاکستانی ناپاک فوج کے ہر ایک سپاہی کے دل میں سدا کے لئے قائم رہیگا۔

آج بلوچستان کی تاریخ کے اس دیو قامت شخص کی یومِ شہادت پے سندھودیش روولیوشنری آرمی (ایس۔آر۔اے) سندھی قوم کے مزاحمتی جذبے کی ترجمانی کرتے ہوئے شہید استاد اسلم بلوچ کی کمٹمنٹ، بھادری، قربانی اور انقلابی خدمات کو خراج پیش کرتی ہے اور ان کے سندھ کی مزاحمتی جدوجہد کی جانب ادا کئے ہوئے کردار کو سراہتی ہے۔

شہید استاد اسلم بلوچ کا کردار اور قربانی جہاں دونوں برادر اور محکوم بلوچ اور سندھی اقوام کی آزادی تک ان کی رہنمائی کرتا رہے گا وہاں صدیوں تک یاد بھی رکھا جائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں