بلوچستان پنجابی بالادستی، وسائل کی لوٹ مار، اور نوآبادیاتی پالیسیوں کے باعث استحصال کا شکار ہے۔ این ڈی پی

31

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے جاری بیان کے مطابق پارٹی کا 14 ویں مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی اجلاس 30 نومبر سے 01 دسمبر 2024 بمقام حب زیر صدارت مرکزی آرگنائزر شاہ زیب بلوچ منعقد ہوا، جس میں سیکرٹری رپورٹ، رپورٹ برائے متفرق کمیٹیاں، تنقید برائے تعمیر، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال تنظیمی امور و آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔ اجلاس کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں خاموشی سے کیا گیا جس کے بعد پہلے ایجنڈے کا باقاعدہ آغاز کرکے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر نے سیکٹری رپورٹ پیش کیا جس میں سابقہ کارکردگی سمیت تیرویں مرکزی کمیٹی اجلاس کے فیصلوں کا جائزہ لیا گیا جبکہ دوسرے ایجنڈے میں تمام کمیٹیوں نے اپنے اپنے رپورٹ پیش کئے۔تنقید برائے تعمیر کے ایجنڈے میں تمام رپورٹوں سمیت پارٹی کی کارکردگی پر تعمیری تنقید کیا گیا.
تنظیمی امور کے اجنڈے میں بحث کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ نوآبادیاتی نظام بالادست اور محکوم کے مابین موجود سماجی، سیاسی و معاشی تفریق کو واضح کرتا ہے، جہاں بالادست خود پر نفسیاتی برتری کو قائم رکھتے ہوئے مہذب اور اعلی ظاہر کرتے ہیں جبکہ محکوم کو کمتر اور ادنیٰ ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ اس نظام کے تحت بالادست اپنے سے کمزور اقوام پر سماجی، سیاسی، اور معاشی تسلط کو واضح کرتا ہے۔ سولہویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد یورپی سامراج نے نوآبادیاتی نظام کو اپنے استعماری مقاصد کے لیے استعمال کیا، جس کے نتیجے میں ایشیا، افریقہ، اور لاطینی امریکہ سمیت کئی خطے متاثر ہوئے۔ متحدہ ہندوستان پر برطانوی قبضے کے دوران مذہبی تفریق کو ہوا دی گئی، اور مسلم لیگ کے ذریعے دو قومی نظریے کو فروغ دے کر تقسیم ہند ممکن بنائی گئی۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ قوم، جو اپنی تاریخی مرکزیت اور ثقافتی شناخت کی حامل رہی ہے، نوآبادیاتی جبر کا مسلسل سامنا کرتی آئی ہے۔ قلات ریاست، جو بلوچ خودمختاری کی علامت تھی، برطانوی سامراج کے زیر اثر کمزور ہوئی اور 1948 میں جبری طور پر پاکستان کا حصہ بنا دی گئی۔ آج بھی بلوچستان پنجابی بالادستی، وسائل کی لوٹ مار، اور نوآبادیاتی پالیسیوں کے باعث استحصال کا شکار ہے، جبکہ اس کے معدنی وسائل کو قومی ترقی کے بجائے مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کی تربیت کی ناگزیر ضرورت ہے، خاص طور پر موجودہ حالات میں جب بلوچ قوم کو اپنی شناخت، حقوق اور خودمختاری کے لئے منظم جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔ قوم پرست سیاست کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کے کارکنان نہ صرف نظریاتی طور پر واضح ہوں بلکہ عملی طور پر بھی منظم اور متحرک ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی وضاحت نہایت ضرور ہے کہ ایک منظم اور مضبوط ڈھانچے کے بغیر کوئی بھی سیاسی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جمہوری مرکزیت پر مبنی تنظیم کا مطلب یہ ہے کہ قیادت اور کارکنوں کے درمیان رابطہ مضبوط ہو، فیصلے جمہوری اصولوں کے مطابق ہوں، اور ان پر عملدرآمد ایک مرکزیت کے تحت کیا جائے۔ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو اس ڈھانچے کا حصہ بنائیں اور انہیں عوام کے درمیان سیاسی شعور پیدا کرنے کے لئے تیار کریں۔ بلوچ قوم کے لئے بلوچستان کی خودمختاری کا حصول اور بلوچ سر زمین پر بلوچ حق حاکمیت ایک تاریخی جدوجہد ہے جس میں منظم پارٹیوں، مختلف محاذ پر جدوجہد کرنے والے تنظیموں اور تربیت یافتہ کارکنان کا کردار فیصلہ کن ہے۔ میر محراب خان سے لے کر حالیہ بلوچ قوم پرستی کے تحریک کے روح رواں یوسف عزیز مگسی، عبدالعزیز کرد کی جدوجہد سے لے کر اب تک جاری رہنے والے یہ تاریخی جدوجہد ہمیں سکھاتی ہے کہ اس جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کارکنان بلوچ تاریخ اور ثقافت سے بخوبی واقف ہوں تاکہ وہ عوام کو اپنی تاریخی جڑوں سے جوڑ سکیں۔ اور ضروری ہے کہ وہ قانونی اور سیاسی اصولوں سے آگاہ ہوں اور جدید ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا جانتے ہوں تاکہ اپنی آواز کو مؤثر طریقے سے عالمی سطح تک پہنچا سکیں۔

انہوں نے کہاکہ سیاسی کارکن کسی بھی تحریک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی تربیت نہ صرف ان کے شعور کو بڑھاتی ہے بلکہ انہیں سیاسی جدوجہد کے لئے تیار بھی کرتی ہے۔ بلوچستان کی صورتحال کے پیش نظر، جہاں بلوچ قوم کو معاشی، سماجی، اور سیاسی استحصال کا سامنا ہے، تربیت یافتہ سیاسی کارکنوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے۔ ان کارکنان کو حقوق، جدوجہد کے اصول، اور جمہوری مرکزیت کے تحت تنظیم سازی کے طریقوں سے آگاہ کرنا لازم ہے تاکہ وہ ایک مربوط حکمت عملی کے تحت قومی مقاصد کے لئے کام کر سکیں۔ سیاسی کارکنوں کی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ انہیں مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں پارٹی کارکنان اپنے نظریات کو بہتر انداز میں سمجھنے، قیادت سے براہ راست رابطہ کرنے، ایک دوسرے کے تجربات سمیت پارٹی کے مقاصد اور جدوجہد کی سمت کو واضح طور پر سمجھ سکیں۔
بلوچستان کی موجودہ سیاسی اور سماجی صورتحال کے پیش نظر، ورکروں کی تربیت نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ منظم سیاسی پارٹی اور تربیت یافتہ کارکنان ہی وہ بنیاد فراہم کر سکتے ہیں جو بلوچ قوم کی خودمختاری کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کر سکے۔ قوم پرست سیاست کو مضبوط کرنے کے لئے لازم ہے کہ اس میں شمولیت اختیار کرنے والے کارکنان کو نہ صرف نظریاتی بلکہ عملی طور پر بھی مضبوط بنایا جائے تاکہ وہ سیاسی، سماجی، اور معاشی سطح پر اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں۔

انہوں نے کہاکہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ایک بلوچ قوم پرست سیاسی جماعت کی حیثیت سے واضح موقف رکھتی ہے کہ سیاسی و جمہوری طریقہ کار اختیار کر کے بلوچ ساحل وسائل کے حفاظت کو یقینی بنا کر اپنے قومی شناخت کی بحالی و آزادی کی جدوجہد کرے جس کے لیے لازمی ہے کہ نظم و ضبط و سیاسی اصولوں پر مبنی جدوجہد کر کے سیاسی کارکنان کی تعلیم و تربیت کی جا سکے تاکہ نوآبادیات کے پیداکردہ پروپگنڈوں کا ہر محاذ پر مقابلہ کیا جاسکے۔ آج بھی قوم پرستی کے دعویدار سیاسی جماعتوں نے پارلیمانی سیاست کے آڑ میں بلوچ قوم کو اسکے سیاسی ہدف سے بھٹکا دیا ہے اور بلوچ سیاسی مزاحمت میں گماشتے کا کردار ادا کرتے ہوئے مسلم لیگ کی ”بی۔ٹیم“ بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ان نام نہاد بلوچ سیاسی جماعتوں کا کردار بلکل اسی طرز پر ہے جہاں دو قومی نظریہ کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ نے متحدہ ہندوستان کا شیرازہ بکھیرا تھا۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے قیام کا مقصد بلوچ قوم کو اسکے حقیقی سیاسی ہدف کے جانب گامزن کرانا ہے اور یہ مکمل طور پر عملدرآمد صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ جماعت سیاسی کارکنان کو ایک منظم سیاسی دستے کی شکل میں رابطہ کاری قائم رکھ کر ریاستی پروپگنڈوں اور بلوچ کے صفحوں میں موجود سیاسی گماشتوں کے مقابلے میں تیار رکھ سکے، اس لیے پارٹی کارکنان کو عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال پر مکمل آگاہی و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہاکہ عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال پر بحث کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ سرد جنگ کے بعد دنیا ایک قطبی نظام میں داخل ہوئی، جہاں امریکہ عالمی طاقت اور معیشت میں نمایاں حیثیت حاصل کرچکا ہے۔ اس کی قیادت سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی ہے، جس نے دنیا کے وسائل پر اس کے اثر کو مزید مضبوط کیا۔ امریکی رسالہ فوربز کی درجہ بندی کے مطابق، 2024 میں امریکہ سب سے طاقتور ملک، چین دوسرا اور روس تیسرے نمبر پر ہیں۔ رواں سال اہم واقعات میں اسرائیل۔حماس، اسرائیل۔حزب اللہ، اور اسرائیل۔ایران تنازعات، روس۔یوکرین جنگ، بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی جلاوطنی، امریکی انتخابات، اور ماحولیاتی بحران شامل ہیں۔ ان حالات نے عالمی سیاست اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ، جن کا تجزیہ مستقبل کے لیے اہم ہوگا۔
اسرائیل۔حماس جنگ میں غزہ پٹی پر 40,000 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے، جبکہ اسرائیلی فوجی ہلاکتیں 375 تک ہیں۔ ناروے نے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن جارحیت جاری رہی۔ حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ 31 جولائی 2024 کو ایران میں حملے میں مارے گئے، اور 7 اکتوبر 2024 کو یحییٰ السنوار کی موت حماس کے لیے دوسرا بڑا دھچکہ تھی۔ جنگ کے دوران غزہ کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا، اور فلسطینی عوام غربت، بھوک، اور بیماری کا شکار ہو گئے ہیں، جن کے لیے زندگی کی بحالی ایک مشکل چیلنج بن چکی ہے۔حماس ایک سنی تنظیم ہے جو فلسطینی ریاست کے قیام اور اسرائیلی ریاست کے خاتمے کی جدوجہد میں یقین رکھتی ہے، اور اس کا مرکز غزہ پٹی ہے، جو تباہی کا شکار ہے۔ اسی طرح حزب اللہ بھی ایک شیعہ مزاحمتی تنظیم ہے جو ایران کی حمایت سے اسرائیل کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے شمالی علاقوں پر حملے کیے جس کے نتیجے میں اسرائیل نے اس کے خلاف فیصلہ کن جنگ شروع کی۔ ستمبر 2024 میں اسرائیل نے حزب اللہ کے مواصلاتی نظام پر حملے کیے جس میں 300 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اسرائیل سے لبنان کو غزہ جیسے تباہی سے بچانے کی درخواست کی، لیکن اسرائیلی حملے جاری ہیں۔ 29 ستمبر 2024 کو اسرائیل نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں حملہ کرکے حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کو ہلاک کر دیا، جس کے بعد حزب اللہ کمزور ہو کر عملاً ایک ناکارہ تنظیم بن چکی ہے۔ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے امکانات کئی دہائیوں سے بڑھ رہے تھے، جو بالآخر حماس اور حزب اللہ کے حملوں کے بعد حقیقت بن گئے۔ ایران کا ان دونوں تنظیموں کی پشت پناہی میں بڑا کردار ہے، اور اسرائیل اسے اپنی سب سے بڑی دھمکی سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے 2 اپریل 2024 کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ایرانی کمانڈر رضازایدی سمیت 8 افراد ہلاک ہو گئے، جس کے جواب میں ایران نے 15 اپریل 2024 کو اسرائیل پر 200 سے زائد ڈرون حملے کیے۔ اسی دوران، 19 مئی 2024 کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے، جس پر عالمی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیلی ایجنسی ملوث تھی۔ اسرائیل کا مقصد ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کرنا ہے، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ یمن کے حوثی باغیوں نے بھی اسرائیل کے خلاف حملے کیے، لیکن ان کے اثرات محدود رہے ہیں۔
عالمی سطح پر، چین، روس، یمن، افغانستان، اور شام اسرائیل کے مخالف ہیں، جبکہ امریکہ، نیٹو ممالک، یورپی یونین، کینیڈا اور جاپان اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ 29 ستمبر 2024 کو امریکی پینٹاگون نے اسرائیل کا مکمل دفاع کرنے کا اعلان کیا اور 40 ہزار امریکی فوجیوں کو ہنگامی طور پر الرٹ کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس میں اسرائیل، ایران، لبنان، اور غزہ کی پٹی کے حالات پر تفصیلی بحث ہوئی، جس میں جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی۔ عالمی برادری نے اسرائیل کے خلاف جنگ بندی کا مطالبہ کیا، جبکہ ترکی کے صدر نے اسرائیلی حملوں میں 17 ہزار بچوں کی ہلاکت کا ذکر کیا۔
12 نومبر 2024 کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عرب اسلامی اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں اسرائیلی حملوں کو بند کرنے اور فلسطین کی خودمختار ریاست کے قیام کی قرارداد منظور کی گئی۔ تاہم، مسلم دنیا عالمی سرمایہ داریت اور امریکہ کے سامنے بے بس نظر آتی ہے، جو اپنے معاشی مفادات کو محفوظ رکھنے کے لئے اسرائیل کے خلاف کھل کر احتجاج نہیں کر رہی۔ اس کانفرنس کا مقصد صرف عوامی مزاحمت کو روکنا اور حکومتی مفادات کو محفوظ رکھنا تھا۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں مذہبی شدت پسندی بڑھتی جا رہی ہے، جو عالمی سرمایہ داریت کے مفاد میں ہے کیونکہ جنگ سرمایہ داروں کے لئے منافع کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے دفاع کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیاروں کا استعمال کرتی ہیں، اور جنگ زدہ علاقوں میں پرانے ہتھیاروں کی فروخت سے بھی منافع حاصل کرتی ہیں۔ سرد جنگ کے بعد عالمی طاقتیں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، اور اس جنگ میں نظریاتی اختلاف نہیں ہیں، کیونکہ دونوں طرف کے سامراجی ممالک کا مقصد دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔ عالمی سامراجی ریاستیں، خصوصاً امریکہ، روس، اور چین، نے دنیا کو دو قطبی معاشی نظام میں تقسیم کر دیا ہے۔ امریکہ کی قیادت میں عالمی مالیاتی ادارہ معیشت کو کنٹرول کرتا ہے، جبکہ چین اور روس عالمی معیشت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں عالمی سامراجی ممالک جدید ٹیکنالوجی جیسے مصنوعی ذہانت، سائبر جنگ، حیاتیاتی جنگ، اور کیمیائی جنگ کے ذریعے ایک دوسرے پر حملے کر سکتے ہیں، جس سے انسانیت کو بڑی تباہی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کروس-یوکرین جنگ کی عالمی سیاسی اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کیونکہ یوکرین سابقہ سوویت یونین کا حصہ تھا، جس نے سرد جنگ کے دوران نیوکلیئر ہتھیار نصب کیے تھے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرین 1991 میں آزاد ہوا اور ابتدا میں روس کے حامی حکمران منتخب ہوئے، لیکن 2000 کے بعد یوکرین نے نیٹو اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بڑھانا شروع کیے۔ روس نے یوکرین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی تاکہ اپنے حامی حکمران منتخب کروا سکے، مگر 2013 میں پیٹرو پرشینکو کے انتخاب کے بعد یوکرین نے یورپ کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھا دیے۔ یوکرین کی آرتھوڈوکس چرچ کو روس سے الگ کرنا روس کے لیے ایک شدید دھچکا ثابت ہوا، کیونکہ اس کا مذہبی اثر یورپ کے عیسائی فرقوں کے ساتھ مضبوط ہوگیا، جس سے روس کے لیے یوکرین کو قابو میں رکھنا مشکل ہو گیا۔ پانامہ پیپر اسکینڈل میں پیٹرو پروشینکو کا نام آنے اور امراء شاہی مزاج اپنانے کے بعد 2019 میں ولادیمر زیلنسکی نے پیٹرو پروشینکو کو 73 فیصد ووٹ سے شکست دی۔ زیلنسکی نے یوکرین کو روس سے آزاد کرتے ہوئے امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم کیے۔ اس پر روس نے 24 فروری 2022 کو یوکرین پر حملہ کیا، جس میں یوکرینی انفراسٹرکچر اور انسانی جانوں کا بڑا نقصان ہوا۔ روس نے مشرقی یوکرین پر قبضہ کر لیا، لیکن یوکرین کی مزاحمت اور مغربی ممالک کی مدد سے مکمل قبضہ حاصل کرنا روس کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ اس تنازعے میں عالمی سطح پر روس اور امریکہ سمیت نیٹو اور یورپی ممالک ایک دوسرے کے معاشی و سیاسی مفادات کی مخالفت کر رہے ہیں، اور روس نے نیوکلیر ہتھیاروں کا استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔
تاریخی طور پر یوکرین کی جڑیں “کیوین روس ریاست” سے جڑی ہیں، جس میں یوکرین، بیلا روس اور مغربی روس شامل تھے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرین نے 2014 میں یورپی یونین کے ساتھ اتحاد کی طرف قدم بڑھایا، جس سے روس نے کرائیمیا پر قبضہ کیا اور یوکرین کے مشرقی علاقے میں روسی حمایتی باغیوں کو مدد فراہم کی۔ اس تنازعے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یوکرین کے مغربی حصے کے لوگ روس کو نوآبادیات سمجھتے ہیں، جبکہ مشرقی حصے کے لوگ روسی نسل اور زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج یوکرین کے عوام کی بڑی تعداد روس کو دشمن سمجھتی ہے اور زیلنسکی روسی جارحیت کے خلاف لڑ رہا ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے تاریخی کامیابی حاصل کی اور دوسری بار صدر منتخب ہوئے۔ ٹرمپ نے روس-یوکرین جنگ کے خاتمے اور ایران کے خلاف معاشی پابندیوں کی بات کی۔ ان کی کامیابی کے بعد امریکی اور روسی نیوکلیئر پالیسیوں میں اہم تبدیلیوں کا امکان ہے۔

انہوں نے کہاکہ بنگلادیش میں نوکری کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے لیے عوامی تحریک کئی سالوں سے جاری تھی۔ 1971 میں بنگال کی آزادی کے لیے جان قربان کرنے والوں کے ورثاء اور اسیران کو نوکریوں میں حصہ دیا گیا، جسے قومی اعزاز کے طور پر اگلی نسلوں کو بھی دیا گیا۔ مگر عوامی تحریک نے اس وقت زور پکڑا جب تیسرے نسل کو بھی اس کوٹہ سسٹم میں حصہ دیا گیا۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی، لیکن طلبہ تنظیموں کے شامل ہونے سے جھڑپیں شروع ہو گئیں جس میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ بالآخر بنگالی فوج نے مداخلت کی اور شیخ حسینہ کو جلا وطن کر دیا۔ اس پر عالمی فوجداری عدالت میں شیخ حسینہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا۔امریکہ کی قیادت میں عالمی معیشتی ادارہ معیشت کو کنٹرول کرتا ہے جبکہ چین ایشیائی ترقیاتی بینک جبکہ روس عالمی اقتصادی تعاون تنظیم کے ذریعے عالمی معیشت پر اثر انداز کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال بھی بحرانی ہے۔ ملک کو 2 ارب ڈالر کی فوری بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات کی وجہ سے پاکستان کو مزید ٹیکس لگانے پڑے ہیں اور منی بجٹ کا امکان ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان میں 2.8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، جس سے چینی سرمایہ کاری کی مدمقابل سعودی عرب کو میدان میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم، ایران نے پاکستان کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے، جو پاکستان کے معاشی بحران کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی و معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ قرضوں کی مجموعی مقدار 71 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکی ہے اور بیروزگاری، مہنگائی اور کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبوں میں فرقہ وارانہ فسادات، قومی مزاحمتی تحریکوں اور سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کے نظام کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔

مزید کہاکہ بلوچ گلزمین کو13 نومبر1839؁ء کے قبضے کے بعد تین حصوں میں انگریزوں نے تقسیم کیا تھا جس میں ایک حصہ افغانستان کو گنڈ مگ معاہدے کے زریعے دیا گیا، دوسرا حصہ ایرا کو گولڈ اسمیت لائن کے ذریعے حوالے کیا گیا اور تیسرے حصے کو سازش کے تحت27 مارچ1948؁ء کو جبری قبضہ کر کے پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ اس وقت تک پانچ مزاحمتی تحریکوں نے بلوچ و پاکستان کے درمیان جنم لیا ہے اور ان 77 سالوں میں بلوچ گل زمین کو تینوں ریاستوں کی جانب سے شدید جبر و تشدد کے پالیسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ذریعہ معاش ناپید ہو چکا ہے، بلوچ کے قدیم معاشی ذرائر ماہی گیری، زراعت اور مالداری کے شعبوں کو عدم توجہی کے باعث برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ معدنی وسائل پر وفاق (اسلام آباد)کا قبضہ جما کر عالمی سامراجی کمپنیوں سے معاہدے کر کے کوڑیوں کے دام بیچا جا رہاہے، جبری گمشدگیوں جیسے سنگین انسانی خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تعلیم و صحت جیسے بنیادی ضروروں سے محروم کر دیا گیا ہے، ریاستی نظام میں قومی، لسانی و صنفی امتیاز کو بلوچ کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے، بلوچ کے روایت، زبان، ثقافت، تہذیب اور تاریخ کو پاؤں تلے مسخ کیا جا رہا ہے، گویا بلوچ وطن مکمل نوآبادیاتی نظام کے ماتحت ایک محکوم قوم کا منظر پیش کر رہا ہے، جہاں نوآبادکار ادارہ جاتی طرز پر بلوچ کا بد ترین استحصال کر رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ریکوڈک، سیندک، سی پیک اور گوادر جیسے منصوبوں سے ترقی کے دعوے کیے گئے، مگر ان سے بلوچ عوام کو فائدہ نہیں پہنچا۔ ان منصوبوں نے صرف پنجاب کی معیشت کو فائدہ پہنچایا اور بلوچ عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ بلوچ مزاحمت میں شدت آئی ہے، جس کے نتیجے میں ریاستی اداروں پر حملے کیے گئے ہیں۔ ایپکس کمیٹی نے بلوچستان کے حالات پر قابو پانے کے لیے سخت فیصلے کیے ہیں، جن کے اثرات جلد سامنے آ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کےپارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سیاست، حکمت عملی صرف پارلیمانی سیاست کے حصول تک محدود ہو گئے ہیں اور جو قوم پرستی کے نظریے سے مکمل بٹھک چکے ہیں، جہاں وفاقی سیاسی جماعتوں کے طرز پر موقع پرستی اور مفاادات کے شکار ہو چکے ہیں اور قومی سیاست کے بجائے ایک دوسرے کے حمایت یا مخالفت کرتے نظر آتے ہیں جبکہ قومی حق خوداریت ان سیاسی جماعتوں کے منشور کا حصہ ہوتے ہوئے بھی بلوچ قومی سیاست کو پنجابی بالادست معاشی مفادات کے بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جب ریکوڈک، سیندک، سیپیک، اور گوادر پراجیکٹ کو ریاستی اسمبلیوں میں منظور کرایا جاتا ہے تو یہ صرف ایک ڈمی (DUMMY)کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ جس سے واضح ہے کہ قوم پرستی کے لبادے میں ان جماعتوں نے خود کو اوڈھ لیا ہے لیکن حقیقی بلوچ حب الوطنی کے سیاست سے یہ جماعتیں دور چلے گئے ہیں جہاں ان سے امید رکھنا بلوچ کے لئے صرف وقت کا ضیاع ہے۔

آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے میں تنظیمی امور پر بحث کئے گئے حکمت عملیوں کی روشنی میں متعدد فیصلے لئے گئے جبکہ پارٹی کارکناں کی تربیت کے لئے مرکزی ورکر کنونشن کے انعقاد کا بھی فیصلہ لیا گیا۔

اس کے ساتھ ہی مرکزی آرگنائزنگ باڈی کے ممبر شاہ میر الطاف بلوچ کا اپنے عہدے سے استعفی اکثریتی رائے سے قبول کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی واضح کیا گیا کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ہر اس عمل کا خیر مقدم کرے گی جو بلوچ کے قومی شناخت اور بقاء کے لئے سیاسی میدان میں عملا واضح جدوجہد اور بلوچ قومی حق حاکمیت کے اصول پر کبھی سمجھوتہ نا کرے۔