بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی ملٹرائزیشن اور طلباء کی جبری گمشدگیوں میں تیزی طلباء کے خلاف ایک منظم کریک ڈاؤن کے منصوبہ کی پہلی کڑی ہے۔بی ایس سی

13

‏‏بی ایس سی وفاق و پنجاب کے ترجمان نے بلوچ طلباء پر کریک ڈاؤن کے حالیہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست آئے دن اپنی پالیسیوں کے ذریعے بلوچ اور ریاست کے درمیان جبر و تشدد کے رشتے کو واضع کر رہی ہے۔ بلوچ طلباء پر آج بروئے کار لائے جانے والے تمام حربے ماضی کے جابرانہ تسلسل کی کڑی ہیں، اور آج اس جبر و وحشت کو دوبارہ دہرانے کی کوشش جاری ہے۔ جس میں متعدد سیاسی و باشعور طلباء کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، جن میں سیکنڈوں افراد کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی گئیں، کچھ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور انگنت لوگ آج تک جبری طور پر گمشدہ ہیں۔ بلوچستان کے تقریباً سبھی نامور تعلیمی اداروں میں فوجی چھاونیاں بنائی گئیں اور ہاسٹلوں کو یرغمال کیا گیا، جہاں آج تک تدریسی عمل دوبارہ مکمل بحال نہ ہو سکا۔

‏ترجمان نے مزید کہا کہ آج بھی بلوچستان کے حالات ماضی کے جابرانہ کریک ڈاؤن کا عکس پیش کر رہی ہیں جس میں واضع طور پر ہماری نظروں کے سامنے منصوبہ بندی کے تحت تعلیمی اداروں میں فوج و فورسز کو تعینات کیا جارہا ہے، ہاسٹلوں کو سیل کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے تمام تعلیمی سرگرمیاں مفلوج ہیں۔ ان تمام ہتکھنڈوں کے پیچھے ریاست کے دو مذموم مقاصد صاف طور پر عیان ہیں کہ وہ تعلیمی اداروں کو مکمل تباہ کرکے انہیں چھاؤنی نما ماحول میں تبدیل کرنا چاہتی ہے اور دوسری یہ کہ اس ملٹرائیزیشن کے ذریعے وہ ان تعلیمی اداروں کے اندر وردی و بندوق کے سائے تلے تعلیمی، تربیتی و سیاسی ماحول کو ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ طلباء کو مسلسل ہراسمنٹ اور ذہنی کوفت و ازیت کا شکار بنانا چاہتی ہے یا ان باشعور نوجوانوں کو ماضی کی طرح درندگی کا نشانہ بنا کر ان کا صفایا کرنا چاہتی ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں یا ہاسٹلوں سے طلباء کو بے دھڑک جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اوتھل یونیورسٹی میں بیاندر بلوچ کا واقعہ، کراچی سے جامعہ کراچی کے طلباء کا واقعہ اور یہاں تک کہ بلوچستان سے باہر اسلام آباد سے ایک ہی لمحے میں دس طلباء کو اغوا کرنا، جامعہ بلوچستان کے ہاسٹلوں کو سِیل کرنا یاور بی ایم سی کو مکمل طور پر ملٹری زون میں تبدیل کرنا یہ تمام عزائم ایک تباہ کن کریک ڈاؤن کا منظر پیش کررہے ہیں جس پر خاموشی ہمیں کبھی نہ پورا ہونے والے خصارے میں ڈال دے گی۔

‏ترجمان نے اس ملٹرائیزیشن اور کریک ڈاؤن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان حرکات سے ریاست و حکومت کے بلوچستان میں تعلیم و ترقی کے جھوٹے پروپیگنڈے اور میڈیا میں گُڈ گورننس کا مصنوعی چہرہ بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں۔ ریاست دیگر اقوام و میڈیا کے سامنے جھوٹے ترقیاتی منصوبوں و اسکالرشپس کے دعؤں سے شاید میڈیا کے ذریعے حقائق کو چھپانے کی کوشش رہی ہے لیکن بلوچ و بلوچستان کی حقیقت زمینی بنیادوں پر وہی ظلم و جبر پر قائم ہے اور جو ان مظالم کو محسوس کر پاتا ہے وہ ریاست کے اولین ٹارگٹ بن جاتے ہیں۔ طلباء قوم و معاشرے کی حساس ترین جز ہیں جو اپنے معروضی حالات کو شعوری طور پر سمجھنے اور انکا عملی طور پر حل نکالنے کے لئے کوشان رہتے ہیں ، وہ علم و عمل پر یقین رکھتے ہیں اسی لئے ریاست ہمہ وقت انہیں نیست کرنے کی پالیسیاں بناتی رہتی اور آج جو تعلیمی اداروں کی ملٹرائزیشن طلباء کی جبری گمشدگیوں میں تیزی ہے وہ ان ہی پالیسیوں کی مرہون منت ہے۔ لیکن شعور وہ واحد شئے جو کبھی تشدد سے دب نہیں سکتی۔

‏بیان کے آخر میں ترجمان نے کہا کہ اس بیان کہ ذریعے ہم دو چیزیں واضع کرنا چاہتے ہیں۔ پہلی یہ کہ ریاست اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز آکر بلوچ طلباء کی پر سکون تعلیمی و سیاسی ماحول میں خلل پیدا کرنا بند کرے۔ وگرنہ بلوچ طلبا کی طرف سے ہمہ گیر مزاحمت کا راستہ اپنایا جائے گا۔ ریاست اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ ہمیں ڈرا دھمکا کر یا جبری گمشدگی جیسے غیر انسانی عمل کا شکار بنا کر خاموش کر سکتی ہے، بلوچ طلبا اپنے حقوق اور اپنی یکجہتی کے طاقت سے بخوبی واقف ہیں، اور ہم اس ظلم و جبر کے سامنے کبھی بھی سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔ اور ہمارا دوسرا پیغام اُن تمام بلوچ طلبا کے لئے ہے، جو آج بلوچستان یا بلوچستان سے باہر مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ کہ آج کی یہ گھڑی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس ظلم و جبر کے تسلسل کو اگر کوئی شے روک سکتی ہے، تو صرف اور صرف ہماری یکجہتی اور جذبہ ء مزاحمت ہے۔ اسی لئے آج ہمیں تمام فرق و درق اور ذاتی مسائل سے نکل کر ایک اکٹھ اور مضبوط و زندہ قوم کی مانند اس کا مقابلہ کرنا ہے۔