بلوچستان میں انسانی حقوق کے عالمی دن پر مظاہرے، ریلیاں اور ریاستی رکاوٹیں

124

10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر بلوچستان بھر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) اور دیگر تنظیموں کی جانب سے مختلف شہروں میں مظاہروں، امن واکس اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا۔

ان تقاریب کا مقصد بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانا تھا۔ تاہم، ان سرگرمیوں کے دوران ریاستی حکام کی جانب سے شدید رکاوٹوں کا سامنا رہا۔

مظاہرے اور سیمینارز

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے “ہمارے حقوق، ہمارا مستقبل، ابھی” کے عنوان سے مختلف شہروں میں تقاریب کا انعقاد کیا، جن میں کراچی، تربت، حب چوکی اور کوئٹہ شامل ہیں۔ مظاہروں اور سیمینارز میں بڑی تعداد میں انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلاء، سیاسی تنظیموں کے ارکان، شہریوں، اور جبری گمشدہ افراد کے اہل خانہ نے شرکت کی۔

شرکاء نے اس موقع پر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور بلوچ عوام کے ساتھ ریاستی سلوک کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ ان مسائل پر توجہ دیں اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو ختم کرنے میں کردار ادا کریں۔

عالمی انسانی حقوق کے دن کے موقع پر حب چوکی میں بی وائی سی کی جانب سے لسبیلہ پریس کلب کے سامنے ایک پرامن واک کا اعلان کیا گیا تھا، جس کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف شعور اجاگر کرنا تھا تاہم مقامی انتظامیہ نے پریس کلب کے راستے بند کر دیے اور کچرے کے ٹرکوں سے رکاوٹیں کھڑی کرکے مظاہرین کو واک منعقد کرنے سے روک دیا۔

اس موقع پر جبری لاپتہ بلوچ کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ، جو اپنے گمشدہ بیٹے کی تصویر اٹھائے موجود تھیں، نے کہا ہم پرامن احتجاج کے لیے آئے تھے لیکن حکام نے کچرے کے ٹرک لگا کر ہمارے راستے بند کر دیے۔

باوجود رکاوٹوں کے، خواتین، بچوں، اور دیگر شرکاء نے حب پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا اور اپنے لاپتہ عزیزوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا مظاہرین نے اپنے آئینی حق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احتجاج کو روکنا جمہوریت کے خلاف ہے اور یہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

کوئٹہ میں پروفائلنگ

کوئٹہ میں بی وائی سی کے زیر اہتمام سیمینار میں بھی رکاوٹیں ڈالیں گئیں انتظامیہ اور پولیس نے عام شرکاء سے ان کے نام، والدیت، اور قومی شناختی کارڈ کی تفصیلات طلب کیں، جو پریس کلب میں داخلے کی شرط بنائی گئی تھی منتظمین کے مطابق، اس اقدام کا مقصد بلوچ سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی پروفائلنگ کرنا اور بعد میں انہیں ہراساں کرنا تھا۔

تربت میں مشکلات

تربت میں بھی انسانی حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے سیمینار کے دوران شرکاء کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیچ انتظامیہ اور پولیس نے مرد اور خواتین شرکاء کی پروفائلنگ کی اور انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔

بی وائی سی کا ردعمل

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ان ریاستی اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا یہ اقدامات آزادی اظہار، اجتماع، وقار، شہری اور سیاسی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں ریاست، جو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (UDHR) کی دستخط کنندہ ہے، نے بلوچ عوام کو غیرانسانی سلوک کا نشانہ بنایا ہے اور بلوچستان کو انسانی حقوق سے محروم خطہ بنا دیا ہے۔

بی وائی سی نے مطالبہ کیا کہ مقامی انتظامیہ اپنے غیرجمہوری اقدامات بند کرے، ورنہ عوام کو مزید شدید احتجاج پر مجبور ہونا پڑے گا۔

بی وائی سی نے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لیں اور ریاست کو ان اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرائیں۔ مظاہرین نے زور دیا کہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ عالمی سطح پر اجاگر ہونا چاہیے تاکہ بلوچستان کے لوگوں کو انصاف مل سکے۔

انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر بلوچستان میں احتجاج اور سیمینارز منعقد کرنے کی کوششوں کو ریاستی رکاوٹوں اور پابندیوں کا سامنا رہا تاہم، بلوچ عوام اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا عزم برقرار رکھا اور کہا کہ یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تمام گمشدہ افراد کی بازیابی اور بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بنایا جاتا۔