بلوچستان حکومت مبینہ طور پر ماہانہ 5.5 ملین روپے “سوشل میڈیا ملازمین” پر خرچ کر رہی ہے، جنہیں حکومتی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور اختلاف رائے کا مقابلہ کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ یہ انکشاف آن لائن شیئر کی گئی دستاویزات سے ہوا ہے۔
دستاویزات، جنہیں مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ سے منسلک کیا گیا ہے، ان افراد کو دی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات فراہم کرتی ہیں، جنہیں “سوشل میڈیا ملازمین” کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔ ان کا کام حکومتی اسکیموں کی تشہیر اور آن لائن بیانیوں کی نگرانی کرنا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ملازمین بلوچ کارکنوں اور جبری گمشدگی کے شکار افراد کے خاندانوں کے خلاف غلط معلومات پھیلانے میں ملوث ہیں۔
ناروے میں مقیم صحافی کیہ بلوچ نے ان اخراجات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت پروپیگنڈے کو خطے کے اہم مسائل حل کرنے پر ترجیح دے رہی ہے۔
کیہ بلوچ نے ایک پوسٹ میں لکھا، “سرفراز بگٹی کی قیادت میں حکومت ایسے افراد کو پیسے دے رہی ہے جو پرامن بلوچ حقوق کے کارکنوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں پر بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ ریاست کے حامی بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں، انہیں غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ “نعرہ لگائیں ’پاکستان زندہ باد‘، کہیں ’پاک فوج زندہ باد‘، اور آپ منشیات اسمگل کر سکتے ہیں یا ذاتی ملیشیا چلا سکتے ہیں،”
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حکومت کے ایجنڈے کی حمایت کے لیے گمنام اکاؤنٹس بنانے کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
بلوچ کارکن صبیحہ بلوچ نے بھی ان مبینہ اخراجات کی مذمت کی اور حکومت پر عوامی وسائل کو بلوچ وسائل کی لوٹ مار کو چھپانے کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا، “نوآبادیاتی طاقت ہمارے وسائل سے کھربوں کی دولت نکالتی ہے، لوٹ مار اور نسل کشی کو بغیر کسی مزاحمت کے جاری رکھتی ہے۔ اپنی جرائم چھپانے کے لیے یہ پروپیگنڈے پر کروڑوں خرچ کرتی ہے۔”
بلوچستان حکومت نے ان الزامات کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ دو سال قبل 2022 میں بھی صحافیوں کی جانب سے متعدد ایسے دستاویزات سامنے آئے تھیں جہاں حکومت کی جانب سے وائس آف بلوچستان اور اسکے زیر اثر چلنے والے این جی اوز اور سوشل میڈیا گروپس کو کور کمانڈر بلوچستان کی درخواست پر حکومت بلوچستان نے 37 ملین (تین کروڑ ستر لاکھ) عطا کئے تھیں۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق اس پروجیکٹ میں ”وائس آف بلوچستان“ نامی غیر رجسٹرڈ این جی اوز کے ذریعے مختلف پروجیکٹس چلائے گئے جن پر تین کروڑ سے زائد فنڈز خرچ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
مذکورہ دستاویزات صحافی کیّا بلوچ کے جانب سے اکتوبر 2022 میں سامنے لائے گئے تھیں جس کے بعد کئی عوامی حلقوں سے حکومت کو عوامی پیسے این جی اوز پر خرچ کرنے کے حوالے سے شدید تنقید کی تھی۔
تاہم حکومت کی جانب سے تاحال ان الزامات کے حوالے کوئی مؤقف سامنے نہیں آسکا ہے جبکہ مذکورہ این جی اوز تاحال بلوچستان میں بحال ہیں۔