بانک کریمہ مظلوم اقوام کے لیے مزاحمت کی علامت ہے ، ڈاکٹر نسیم بلوچ

105

بلوچ نیشنل موومنٹ نے شہید بانک کریمہ کی چوتھی برسی کی مناسبت سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا۔جس میں بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ سمیت دیگر شخصیات نے خطاب کیا۔

انھوں نے آپ کو یاد کرتے ہوئے آپ کی لازوال وراثت کو خراج تحسین پیش کیا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کریمہ کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا بانک کریمہ ناصرف بلوچ قوم بلکہ دیگر محکوم اقوام کے لیے بھی مزاحمت کی علامت ہے۔آپ معاشرے کے بے ا٘واز طبقات کے لیے بلوچ قوم کی آواز تھیں۔آج ہم بانک کے کردار و شخصیت پر بات کرنے کے لیے یہاں اکھٹے ہیں۔لفظ ’ بانک‘ عموما تمام خواتین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن آج کوئی ’بانک‘ کہے تو سب سمجھیں گے کہ ’کریمہ بلوچ‘ کا ذکر ہو رہا ہے۔آپ نے اپنے کردار کی بدولت یہ لقب حاصل کیا۔آپ کو ’’ لمہ وطن ‘‘ اور ’’ رژن بلوچستان‘‘ کے القابات سے نوازا گیا لیکن آپ اس سے کئی زیادہ کے مستحق ہیں۔جیسے کہ میر محمد علی تالپور لکھتے ہیں کریمہ ، بلوچ قوم کی روح اور شعور ہیں۔

انھوں نے معاشرے میں آپ کے اثرات پر مزید کہا انقلاب کے لیے نسل در نسل قربانیاں درکار ہیں۔لیکن بانک کریمہ اپنی قیادت کے دوران ، کردار اور ڈسپلن کی بدولت محض چودہ سال میں انقلاب لانے میں کامیاب ہوئیں ، آج بلوچستان کے ہر کونے میں انقلاب کی گونج سنائی دیتی ہے۔قربانی کے فلسفے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔لیکن ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ بانک کریمہ ، نواب خیربخش مری اور بالاچ مری جیسی شخصیات کے بعد پیدا ہونے والا خلا صدیوں میں پر نہیں ہوتے۔کیونکہ وہ اپنے کردار کو دوسروں سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔بانک کریمہ بلوچ نے اپنی وراثت آپ ہی قائم کی۔بلوچ خواتین کی خود مختاری آپ کا ثانوی مقصد تھا جبکہ آپ کی حقیقی جدوجہد بلوچستان کی آزادی کے لیے تھی۔لیکن اپنی کرشماتی شخصیات کی وجہ سے آپ نے ہر بلوچ خاتون کو قومی تحریک سے جوڑ دیا۔آپ پوری بلوچ قوم کے لیے ایک مثالی شخصیت ہیں۔آج ہم جب کسی بلوچ لڑکی کو قومی تحریک آزادی کے لیے سرگرم دیکھتے ہیں تو ہمیں اسی لمحے بانک یاد آتے ہیں۔یہ دراصل میدان عمل میں آپ ہی کی جدوجہد کی توسیع ہے۔ آپ آج کی تحریک کی پیشرو ہیں۔یہاں ہم تصور کرسکتے ہیں اگر آج آپ زندہ ہوتیں تو کیا منظرنامہ ہوتا۔

بی این ایم کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری ، کمال بلوچ نے بانک کریمہ کی سیاسی جدوجہد پر بات کی ، انھوں نے کہا اگر ہم حقیقت پسندانہ بات کریں تو محکومی کی وجہ سے بلوچ سیاست انتہائی مشکل ہے۔کریمہ بلوچ کا کردار صرف خواتین کی حوصلہ افزائی تک محدود نہیں تھا ، آپ نے پوری قوم اور معاشرے کو متاثر کیا۔بلوچ سماج کو مرد اور خواتین کے درمیان تفریق ہمیشہ کے لیے کم ہوئی۔کریمہ کو ہمیشہ بلوچ قومی رہبر کی حیثیت سے یاد کیا جائے گا، اس سے کم ہرگز نہیں۔

بی این ایم کے سینئر ممبر اصغر بلوچ نے کہا بانک کا کردار انقلاب کے اندر انقلاب ہے۔جب دنیا خواتین کے لیے انصاف کی جدوجہد کر رہی تھی تب بانک کریمہ نے بلوچ خواتین کو قیادت کا درجہ دلوایا ، آج پوری قوم فخر محسوس کرتی ہے کہ بلوچ خواتین ان کی قیادت کر رہی ہیں۔یہ کریمہ تھیں جنھوں نے اس عظیم وراثت کے لیے راستہ ہموار کیا۔

انسانی حقوق کی کارکن ، نور مریم نے کریمہ کے ساتھ اپنی ذاتی وابستگی کو یاد کرتے ہوئے کہا کریمہ بلوچ جیسی شخصیت اور دوست پر بات کرنا ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔مگر آپ کے بارے میں بات کرنا آسان نہیں کیونکہ ہم جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔کریمہ پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاسکتا ہے۔تاریخ آپ کو ہمیشہ ایسی شخصیت کے طور پر یاد کرئے گی جو اپنی زمین، اپنے لوگوں کے لیے اور زیادتیوں کے خلاف کھڑی ہوئیں۔ایک نوجوان خاتون کی طور پر آپ دیہی علاقوں میں گھر گھر جاکر آگاہی پھیلاتی تھیں جو بہت زیادہ متاثرکن عمل تھا۔آپ کی جدوجہد بلوچ تاریخ اور یاداشت کا حصہ بن چکی ہے۔آپ کو بلوچ خواتین کی آزادی علمبردار کہا جاسکتا ہے۔کریمہ کی زندگی میں کئی اسباق ہیں جو نسل در نسل لوگوں کو متاثر اور محکوم اقوام کو رہنمائی فراہم کریں گے۔آپ کی زندگی مسکراتے چہرے کے ساتھ ہمیں سکھاتی ہے ، آپ کی مسکراہٹ بھی ہمیں ظلم کے سامنے تسلیم نہ ہونے کا درس دیتی ہے۔

سیاسی سرگرمیوں پر بانک کریمہ کے اثرات پر بات کرتے ہوئے در بی بی نے کہا بانک کریمہ نے بلوچ قومی تحریک کی سیاسی سرگرمیوں میں ہم سب کو متاثر کیا۔آپ نے ہم کو گھر کی چار دیواریوں سے باہر نکال کر قومی سیاست کا حصہ بنایا۔آپ نے ہمیں اپنے لوگوں سے ملنے کی ترغیب دی۔آپ نے ہمیشہ سب سے روابط رکھے اور انھیں بلوچ اور بلوچستان محبت کا پاک نظریہ دیا۔آپ ہمیشہ کہتی تھیں کہ آپ کو اگر اپنے لوگوں کی ضرورت ہے تو ان سے میل جول رکھیں۔آپ ہمیشہ اپنے دوستوں کی خاندان سے ملاقاتیں کرتی تھیں۔

پروگرام کی نظامت کے فرائص پانک کے کوارڈینیٹر حاتم بلوچ نے انجام دیئے اور بی این ایم کے میڈیا اور آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے آئی ٹی اور وژول انچارج عابد جان قادر نے ٹکنیکل معاونت کی ۔