10 دسمبر کو افغان کابینہ کے سینیئر رُکن اور اہم طالبان رہنما خلیل الرحمان حقانی دارالحکومت کابل میں ایک خودکش حملے میں مارے گئے، اس حملے کی ذمہ داری عالمی شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کے مقامی شاخ ‘داعش خراسان’ نے قبول کی ہے۔
خلیل حقانی افغان طالبان کے نائب سربراہ اور موجودہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے چچا تھے۔ وہ حقانی خاندان کے سربراہ اور اہم رہنما تھے جن کی گرفتاری میں مدد دینے پر امریکی حکومت نے 50 لاکھ امریکی ڈالرز کے انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔
خلیل حقانی افغانستان میں اب تک داعش خراسان کے حملوں میں مارے جانے والے طالبان رہنماؤں میں سب سے اعلیٰ عہدیدار ہیں۔
خلیل حقانی کو کیسے نشانہ بنایا گیا؟
خلیل حقانی کو رواں ہفتے بدھ کے روز دن دو بجے کے لگ بھگ دارالحکومت کابل میں واقع وزارتِ مہاجرین کے کمپلیکس میں خودکش حملہ آور نے اُس وقت نشانہ بنایا جب وہ وزیراعظم ہاؤس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کے بعد اپنے دفتر لوٹ رہے تھے۔
اس موقع پر موجود ایک عینی شاہد نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ خلیل حقانی گاڑی سے اُتر کر ملاقات کے منتظر چند افراد سے مل رہے تھے جب سائل کی شکل میں قریب کھڑے مبینہ خودکش حملہ آور نے انھیں پکارا اور اس کے بعد بظاہر امداد کے لیے ایک درخواست پیش کی۔ اسی درخواست پر دستخط کے دوران زوردار دھماکہ ہوا۔
طالبان حکام کی جانب سے میڈیا کو وہ فوٹیج بھی ریلیز کی گئی ہے جس میں مبینہ خودکش حملہ آور کی حملے سے پہلے کی سرگرمی دیکھی جاسکتی ہے۔ اس فوٹیج اور طالبان حکام کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مبینہ خودکش حملہ آور منصوبہ بندی کے تحت ظہر کی نماز کے دوران خلیل حقانی کو نشانہ بنانا چاہتا تھا تاہم ظہر کی نماز میں انھیں موجود نہ پا کر وہ وزرات مہاجرین کے داخلی دروازے پر موجود سائلین کے ساتھ اُن کے انتظار میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
اس سی سی ٹی فوٹیج میں نظر آنے والے مبینہ حملہ آور کی عمر لگ بھگ 30 سال کے قریب ہے جبکہ وہ باریش ہے۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مبینہ حملہ آور فریکچر کی وجہ سے ہاتھ میں ٹھوس پلستر پہنے ہوئے ہے اور پلستر میں موجود سٹیل راڈز کی بابت بتاتے ہوئے وہ سیکورٹی پر مامور محافظین کے سامنے موجود میٹل ڈیٹیکٹر سکینر سے گزر جاتا ہے۔ مسجد کے اندر سے موصول ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق وہ نماز کے وقت اول صف میں نظر آتا ہے مگر اس کے بعد وہ خلیل حقانی کو وہاں موجود نہ پا کر باہر آ کر ان کا انتظار کرتا ہے۔
افغان طالبان کے نائب وزیراعظم برائے اقتصادی امور مولوی عبدالغنی برادر کے قریبی ساتھی عبداللہ عزام کے مطابق وقوعہ کے روز خلیل حقانی اقتصادی کمیشن کے اجلاس میں شریک تھے جو مولوی برادر کی سربراہی میں وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس کی تصاویر وزیراعظم ہاؤس کے رسمی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جاری کی گئی ہیں جن میں خلیل حقانی اجلاس کے دوران مولوی برادر کے پہلو میں بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔
عزام کے مطابق اجلاس کے بعد خلیل حقانی نے وہیں پر ظہر کی نماز ادا کی اور اپنی وزارت کی طرف جانے کے لیے نکل گئے جہاں مبینہ خودکش حملہ آور اُن کا منتظر تھا۔ افغان حکام کے مطابق اس حملے میں خلیل حقانی سمیت اُن کے دو محافظین اور قندھار صوبے سے آیا ایک افغان شہری بھی مارے گئے۔
خلیل حقانی کی نماز جنازہ افغان صوبہ پکتیا میں اُن کے آبائی گاؤں میں جمعرات کے دوپہر ایک بجے ہوئی جس میں افغان میڈیا کے مطابق کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ نمازہ جنازہ کی امامت سراج الدین حقانی نے کی جبکہ طالبان کے نائب وزیراعظم مولوی عبدالکبیر اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سمیت کابل سے دیگر اہم طالبان عہدیداروں نے اس میں شرکت کی۔
خلیل حقانی کون تھے؟
70 سالہ خلیل حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیا کے ضلع ‘گردی سڑی’ سے تھا۔ خلیل حقانی سویت افواج کے خلاف افغان مزاحمت کاروں کے اہم کمانڈر جلال الدین حقانی کے چھوٹے بھائی تھے۔
معروف امریکی محقق ڈونلڈ راسلرز اور واہید براون کی جلال الدین حقانی پر 2013 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق 1975 میں سابق افغان صدر سردار داؤد خان کے خلاف مسلح بغاوت کی وجہ سے جلال الدین حقانی جب اپنے اہلخانہ سمیت پکتیا سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں منتقل ہوئے تو خلیل حقانی کم عمری میں والد کے وفات کے باعث اپنے بھائی جلال الدین حقانی کی زیرکفالت تھے اور ان ہی کے ساتھ وہ بھی وزیرستان منتقل ہوئے تھے۔
اس تحقیق کے مطابق 90 کی دہائی میں طالبان کے ظہور کے ساتھ جلال الدین حقانی اپنے اہلخانہ اور تمام ساتھیوں سمیت طالبان تحریک میں شامل ہوئے اور جلد ہی اس کے ایک ایک اہم رکن بن گئے۔
’شمشاد نیوز‘ کو 2023 میں دیے گئے اپنے انٹرویو میں خلیل حقانی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سویت افواج کے خلاف مزاحمت میں ٹینک اور بڑے اسلحے کے استعمال کے ماہر کمانڈر تھے اور وہ اپنے بھائی جلال الدین حقانی کے مرکز صوبہ خوست میں ایک ٹینک بریگیڈ کے سربراہ بھی تھے، تاہم 2001 کے بعد افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف طالبان جنگ کے دوران اُن کا کوئی اہم عسکری کردار نہیں رہا تھا۔
طالبان میں حقانی خاندان کا کردار 2001 میں افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے حملے میں طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد نمایاں ہوا۔ جلال الدین حقانی نے شمالی وزیرستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف حملوں کا آغاز کیا مگر اُن کی وفاداری طالبان بانی سربراہ ملا محمد عمر کے ساتھ رہی۔ 2007 میں افغانستان میں طالبان حملوں میں شدت کے دوران جلال الدین حقانی نے اپنے گروہ کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کے حوالے کی جو جلد ہی افغان طالبان کے ایک اہم رہنما بن گئے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی احسان ٹیپو محسود کے مطابق 2007 میں جلال الدین حقانی کی علالت کے بعد سراج الدین حقانی نے افغان طالبان میں والد کی جگہ سنبھال لی اور جب وہ افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف حملوں کی سربراہی کرنے لگے تو خلیل حقانی کو خاندان کا سربراہ بنا دیا گیا۔
خلیل حقانی اس دوران ایک بااثر قبائلی رہنما کے طور مشہور ہوئے جو مقامی قبائل کے تنازعات کے حل کے لیے جرگوں کے ایک اہم رکن بنے جس کی بدولت حقانی خاندان نے شمالی وزیرستان کی قبائلی قیادت میں کافی اثر رسوخ بنایا۔
2001 کے بعد سے عسکری کردار نہ ہونے کے باوجود امریکی حکومت نے فروری 2011 میں خلیل حقانی کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کرکے ان پر پچاس لاکھ امریکی ڈالرز انعام رکھا۔ ڈونلڈ رسلز اور واہید براؤن کی تحقیق کے مطابق امریکی حکومت خلیج کے عرب ممالک سے خلیل حقانی کو حقانی نیٹ ورک کے فنڈز حصولی کا اہم رکن سمجھتی تھی، اس لیے اُن کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
افغان طالبان میں خلیل حقانی کا کردار اگست 2021 میں کابل میں سابق افغان حکومت کے خاتمے کے بعد سامنے آیا جب دارالحکومت کابل پر طالبان نے قبضہ کیا۔ ستمبر 2021 میں طالبان نے اپنی کابینہ کا اعلان کیا تو خلیل حقانی کو اس میں وزارتِ مہاجرین کا قلمدان دیا گیا اور وہ اپنی موت تک اس عہدے پر برقرار رہے۔
داعش کے حملے اور ’طالبان کی ناکامی‘
خلیل حقانی پر داعش کا حملہ طالبان سکیورٹی کی نمایاں ناکامی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے قبل اسی قسم کی منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے ایک حملے میں اگست 2022 میں دارالحکومت کابل میں داعش نے طالبان کے بااثر مذہبی رہنما مولوی رحیم اللہ حقانی کو بھی نشانہ بنایا تھا۔
2022 میں داعش کے مبینہ حملہ آور نے مصنوعی پاؤں میں بارود سے بھر کر رحیم اللہ حقانی کو اُن کی دینی درسگاہ میں واقع دفتر کے سامنے نشانہ بنایا تھا۔ داعش کی شدید مخالفت کی وجہ سے رحیم اللہ حقانی اس شدت پسند گروہ کی ہٹ لسٹ پر تھے اور تمام تر احتیاط کے باوجود داعش کا خودکش حملہ آور اُن تک پہنچنے میں کامیاب رہا تھا۔ اس کے علاوہ مارچ 2023 میں شمالی افغان صوبہ بلخ کے طالبان گورنر مولوی داؤد مزمل کو بھی داعش کے ایک حملہ آور نے سائل کی روپ میں گورنر ہاؤس کے اندر پہنچ کر خودکش حملے کا نشانہ بنایا۔
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز دارالحکومت کابل میں داعش کے خودکش حملہ آور نے اُسی طرز کی منصوبہ بندی سے خلیل حقانی کو اُن کے محافظین کے سامنے نشانہ بنایا جن طریقے سے رحیم اللہ حقانی اور داود مزمل پر کو نشانہ بنایا گیا۔
اگست 2021 میں برسراقتدار آنے کے طالبان کے لیے داعش ایک اہم خطرے کے طور ابھر کر سامنے آئی ہے۔ تاہم ساڑھے تین سالہ اقتدار میں طالبان نے داعش کے خطرہ کو نمایاں طور پر کمزور کیا ہے، اس کی اہم دلیل افغانستان میں داعش کے حملوں میں نمایاں کمی ہے۔
18 ستمبر 2021 سے داعش نے طالبان اقتدار کے دوران طالبان مخالف حملوں کا آغاز کیا جس میں دسمبر 2021 کے آخر تک داعش نے 121 حملے کیے جن کی تعداد 2022 میں 171 اور 2023 اور 2024 میں بالترتیب فقط 11 اور 14 رہی۔ تاہم ماہرین کے مطابق حملوں میں کمی کے باوجود داعش طالبان کے لیے ایک اہم خطرہ ہے اور خلیل حقانی جیسے اہم رہنما کی ہلاکت اس کی واضح دلیل ہے۔
دوسری جانب طالبان حکام کا دعویٰ ہے کہ اُن کے سکیورٹی آپریشنز کی وجہ سے داعش نے افغانستان سے فرار ہو کر ہمسایہ ممالک میں ٹھکانے بنائے ہیں جہاں سے وہ افغانستان میں حملے کرتے ہیں۔
اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے خلیل حقانی کے جنازے پر موقع پر کی گئی تقریر میں بھی کیا۔ متقی نے دعویٰ کیا کہ داعش نے 2024 میں افغانستان میں ہونے والے تمام حملوں کی منصوبہ بندی ہمسایہ ممالک سے کی۔
متقی نے ان ہمسایہ ممالک کو خبردار کیا کہ وہ داعش کے مسئلہ پر آنکھیں بند نہ کریں اور اگر ان ممالک نے داعش کو پناہ گاہیں اور حفاظت فراہم کرنے سے اجتناب نہیں کیا تو داعش ایسا خطرہ ہے جس میں افغانستان سمیت ان ممالک کا بھی نقصان ہو گا۔
امیر خان متقی سے قبل ستمبر 2024 میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک رسمی بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ اس سال دارالحکومت کابل، بامیان اور غور صوبوں میں ہونے والے اہم حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان کے بلوچستان صوبہ میں واقع داعش کے خفیہ مراکز سے ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ پاکستان اس نوعیت کے تمام تر الزامات کی متعدد بار تردید کرتے ہوئے دعویٰ کر چکا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے سرے افغانستان سے ملتے ہیں۔ پاکستان باضابطہ طور پر افغانستان میں طالبان حکام سے مطالبہ بھی کر چکا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے جبکہ پاکستانی حکام کی جانب سے اس ضمن میں بہت سے ثبوت بھی فراہم کیے گئے ہیں۔