امیدِ بہار سنگت پیرک جان – سنگت میرک بلوچ

119

امیدِ بہار سنگت پیرک جان

تحریر: سنگت میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ اُن شہداء کو ہمیشہ سنہری الفاظ میں یاد کرتی ہے جنہوں نے اپنے کردار سے پوری قوم کا نام روشن کیا آج میں ایک ایسے شخص کے متعلق بات کر رہا ہوں، وہ شہید میجر نورا عرف پیرک ہے، جس کے بارے میں میرے پاس کم الفاظ ہیں۔ میں انکی تعریف کیسے کروں، کن حروف سے انکا مبارک نام لکھوں اور کس زبان سے اسکا نام پکاروں، جس نے اپنی پوری زندگی اپنی قوم کی بقاء وسلامتی اور آزادی کی خاطرقربان کیا۔

شہید میجر نورا عرف پیرک ایک ایسا لیڈر تھا، آج تک تاریخ اسے اپنے پنوں پر یاد کیا کرتا ہے اس نے اپنا علم اور اپنا سیاسی نظریہ اور قومی سوچ بلوچ اسٹوڈنٹ ارگنازیشن آزاد سے حاصل کیا تھا، بی اس او نے اسے سیاست کے ساتھ ساتھ ایک گوریلا کمانڈر بھی بنایا۔سیاست کے دوران وہ بی ایس او آزاد کا صدر بھی رہا ہے اس کی قابلیت شعور علم کی گہرائی اتنا وسیع بن گیا تھا کہ سیاسی اور قومی شعور نے اسے ایک مزاحمتی راستہ اختیار کرنا پڑا جو آج تک قابل فخر ہے۔

رہنما وه ہوتے ہیں جو ہر مشکل وقت میں اپنے ساتھیوں کو سنبھالیں اور ہر مشکل وقت میں ایسا فیصلہ لیں جو ان کے مقصد کیلئے فائدہ مند ہو، دنیا میں ہم نے بہت سے رہنما دیکھے ہونگے شاید یہ پہلی بار ہے کہ اتنی کم عمر میں ہمارے سامنے ایک ایسا رہنما آیا جس نے سب کی دلوں کو جیتا۔

شہید میجر نورا عرف پیرک احساس و ادراک سے لیس تھا، علم و شعور سے مسلح ہوکر انتہائی باحوصلہ تھا، وہ لہو سے لکیر کھینچ کر راہ دکھلانے والوں میں سے تھا، وہ سروں سے سنگِ راہ رکھ کر مسافروں کو منزل دکھلانے والا رہنما تھا۔

میری شہید میجر نورا عرف پیرک سے ایک دو بار ملاقات ہوئی تھی میری پہلی ملاقات پیرک سے پروم ہائی سکول میں ہوا تھا میں چھوٹا تھا دوسری کلاس میں پڑھ رہا تھا اور ایک دن ہمارے اسکول میں ایک پروگرام ہوئی بی ایس او کا اُس پروگرام میں بہت دوست ائے تھے لیکن ان دوستوں میں ایک دوست پیرک جان تھا اور پروگرام کی تیاری چل رہی تھی میں اور میری دو دوست سائیڈ میں کھڑے تھے اور پیرک نے ہمیں آواز دیا کہ ادھر اؤ پھر ہم گئے پیرک کے پاس اور سلام دعا ہوئی پھر شہید پیرک جان نے ہمارے نام پوچھے اور کلاس کا پوچھا کہ کون سی کلاس میں پڑھ رہے ہو تو ہم نے اپنے نام اور کلاس کا بتایا اور پھر پیرک نے ایک بات کہی کہ اچھی طریقے سے پڑھو کیونکہ یہی پڑھائی ہے کل آپ کو ایک روشنی دے گا اور پھر پروگرام شروع ہوا اور پروگرام کے بعد پیرک اپنے دوستوں کے ساتھ نکل گیا اور پھر میری پیرک جان سے ملاقات نہیں ہوئی اور پھر کچھ مدت کے بعد 2018 میں میں ایک سفر میں تھا کہ سفر کے دوران دوسری بار پیرک سے ملا دور سے لیکن بس سلام دعا ہوئی اور پھر 2019 کی شروعات میں میں اور پدائی سربلند اپنی اوتاک میں بیٹے تھے اور کچھ دوست آئے ان دوستوں میں ایک پیرک جان تھا اور پھر دوست تھوڑا بیٹے اور پھر گئے لیکن پیرک ہمارے اوتاک میں رکا اور پھر ہماری گپ شپ ہوئی اور میں نے پیرک کو کہا کہ میں نے آپ کو دو بار دیکھا ہے اور پیرک جان نے پوچھا کہ کہاں دیکھا ہے آپ نے مجھے اور میں نے کہا کہ میں نے آپ کو پہلی بار پروم ہائی سکول میں دیکھا ہے اور سارا سنایا کہ میں نے آپ کو اس طرح سے دیکھا ہے اور پھر اُس نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا یار آپ تو اس وقت
چھوٹے تھے دیکھ وقت کس طرح گزر جاتا ہے اب تم بڑے ہوئے ہو اور ہنسنے لگے اور مجھے کہا اور اُس نے پوچھا کہ کیسا رہا آپ کی پڑھائی تو میں نے کہا میری پڑھائی تو یہی روشن راستہ ہے جو مجھے تم جیسے مخلص اور قربانی سے سر شار دوستوں کی جذبہ قربانی سے مل گیا ہے۔جہاں تک بات ہے وہ پڑھائی کی وہ بس ویہی کا ویہی رہ گیا اور ہم منزلوڻ کی تلاش میں نکل گئے ۔ پھر اس نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہا یہ تو ہے یہ ریاست کہاں ہمیں پڑھنے دیتی ہے۔

اور پھر رات کے وقت ہم سب دوست بیٹے تھے شہید پیرک جان مسلسل بلوچستان کی باتیں کررہا تھا، وہ اپنے بی ایس او آزاد کے دنوں کے قصے سنا رہا تھا، میں غور سے سن رہا تھا وہ نوجوانوں کی سیاست پر بات کررہا تھا کبھی وہ چیئرمین ذاکر کے سیاسی دوروں کے بابت باتیں کرتا تو کبھی وہ پارلیمانی سیاستدانوں کا مذاق اڑاتے تھے اور ہم خوب ہنستے تھے وہ جنگ میں شہید پیرک جان ایک بہترین صلاحیت کے مالک تھے اپنے سرمچاروں کے ساتھ ہمقدم رہے ہر وقت دوستوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ نہایت خوش مزاج اور وسیع ذہن کے مالک تھے دشمن کے مقابلے کے لئے ہر وقت تیار اور برسرے پیکار تھے یہی انتظار تھا کہ کہیں پہ دشمن نظر آئے اور اس پر حملہ آور ہو جاؤں اور بہترین انداز میں نبھاتا رہا ہر جگہ دشمن پر ہر وقت نہایت سنجیدگی اور اپنے دوستوں کی سلامتی کو مدنظر رکھ کر حملہ آور ہوتا رہا ۔ اور دشمن یہ اچھی طرح جان لے کہ میجر نورا کی شہادت کے بعد بھی اس کو ہزاروں نورا کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ میجر نورا ایک فرد نہیں بلکہ ایک کردار کا نام ہے، اس مقدس سرزمین نے ہمیشہ بہادر نورا جنم دیئے ہیں، شہید میجر نورا پیرک بلوچ نوجوانوں کے لئے ایک مثال ہے جس نے وه سب کچھ کر دکھایا جو ایک حقیقی جہدکار اور لیڈر کو کرنا چاہیئے۔شہید پیرک جان نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اس نے پروم میں حاصل کیا مزید تعلیم کیلئے اس نے پنجگور کویٹہ اور پنجاب کے شہر لاہور کا رخ کیا مگر دشمن کو اس بات کا گورا نہیں ہوا کہ ایک بلوچ تعلیم اور شعور یافتہ ہو جائے، اس کو ایک مرتبہ لاپتہ کیا گیا، پنجاب کے شہر لاہور سے اور کمٹمنٹ کے زریعے اسے دوبارہ رہا کیا گیا کہ وہ اپنے عزیز اور ہم فکری او ہم نظریہ دوست ذاکر مجید کے خلاف بیان دے مگر وہ اپنے نظریے پہ پختہ اور ڈٹا رہا وہاں سے اس نے اپنی سیاسی جدوجہد کو ایک مزاحمتی جدوجہد میں بدل دیا۔ ان کے لیئے پرامن سیاست ناگوار ہوگیا تب اُنھوں نے بندوق اٹھایا اور آخری سانس تک مخلصی اور مستقل مزاجی کے ساتھ بلوچ و بلوچستان کی حفاظت کرتا رہا-

اور لڑائی کے دوران شہادت سے پہلے میجر نورا پیرک نے بلوچ قوم و نوجوانوں کو ایک آخری پیغام دیا جس میں وه کہتے ہیں ” بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ بلوچستان کی جنگ آزادی میں اپنا حصہ شامل کریں اور اس جنگ کو اپنا سمجھیں، اب یہ جنگ تمھارے کندهوں پر ہے، شاید اب ہم ساتھ نہ رہیں اکٹھے نہ رہیں لیکن ہم سب ساتھ ہیں یہاں نہیں تو اُس دنیا میں اکھٹے ہیں، میری ماں، بہن اور چھوٹے اس بات پر غمگین نہ ہوں کہ ہم مارے جا رہے ہیں آج آپ لوگوں کو فخر ہونا چاہیئے کہ ہم غیرت اور وطن کے لئے مارے جا رہے ہیں، میں اپنے سینئر ساتھیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنے تنظیموں کو مضبوط کریں، یہ جنگ ہے اس میں لوگ شہید ہوتے ہیں، سر کٹتے ہیں، ہمارے لیڈر شہید ہوئے ہیں، انشااللہ یہ جنگ اپنی منزل کو پہنچے گا “ہم کامیاب ہونگے “۔

میجر نورا کی آخری پیغام اپنی بلوچ قوم کے لئے یہ تھا کہ اس جنگ کو ہر حال میں جاری رکھنا ہے، کیونکہ یہ جنگ بلوچ قوم کی بقاء کی جنگ ہے اس جنگ کے علاوہ بلوچ قوم کی بقاء کیلئے دوسرا کوئی راستہ نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں