افغانستان کی طالبان حکومت کی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں پاکستان اور افغانستان کو تقسیم کرنے والی ‘ڈیورنڈ لائن’ پر مختلف مقامات پر پاکستانی سرحدی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کی تصدیق کی ہے۔
طالبان نے پاکستانی سرحدی فورسز کے خلاف کارروائیوں کو ‘جوابی آپریشن’ کا نام دیا ہے۔
طالبان حکام کے مطابق پاکستان سے متصل صوبہ پکتیا اور خوست کے اضلاع دانِ پٹھان اور علی شیر کے سرحدی علاقوں میں ہونے والی کارروائی میں سرحد پار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
طالبان کے نائب وزیرِ خارجہ اور وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ شر پسند عناصر کے ٹھکانوں اور ان کے حامیوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ افغان طالبان داعش خراساں کے لیے اس طرح کے حوالہ جات کا استعمال کرتے ہیں۔
دوسری جانب طالبان کے حامی میڈیا آؤٹ لیٹس کا کہنا ہے کہ ہفتے کی علی الصباح تقریباً چار بچے آپریشن شروع ہوا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔
افغانستان کے مقامی ریڈیو ‘حریت’ نے دعویٰ کیا ہے کہ آپریشن کے دوران پاکستان کے 19 سیکیورٹی اہلکار مارے گئے ہیں جب کہ سرحد پر لڑائی اب رک چکی ہے۔ تاہم آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
پاکستان کے سیکیورٹی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو تصدیق کی ہے کہ طالبان نے سرحد پر چار پاکستانی سیکیورٹی پوسٹوں اور دیگر تنصیبات پر حملے کیے جس پر جوابی کارروائی کی گئی ہے۔
سیکیورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
دونوں ملکوں کی سرحد پر یہ جھڑپیں ایسے موقع پر ہوئی ہیں جب پاکستان کی جانب سے منگل کو افغان صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں مبینہ فضائی کارروائی کی گئی تھی جس میں افغان طالبان کے مطابق 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں بیشتر پاکستانی مہاجرین تھے۔
افغان کی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں دھمکی دی تھی کہ پکتیکا حملے کا جواب دیا جائے گا۔