افغانستان میں عدم استحکام کی مرکزی محرک پنجابی نوآبادیاتی سوچ ہے۔ دل مراد بلوچ

1

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ نے کہا کہ افغانستان کی تباہی اور گزشتہ چالیس سالوں سے جاری جنگ کی بنیادی وجہ پاکستان کی پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی نوآبادیاتی سوچ اور خطے میں توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔ پاکستان نے نہ صرف اپنی محکوم قوموں کو ظلم و استحصال کا شکار بنایا ہے بلکہ اپنے حریصانہ نظریات کے ذریعے افغانستان جیسی آزاد ریاست کو بھی مسلسل عدم استحکام کا شکار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جب تک اس پنجابی کی توسیع پسندانہ سوچ کا خاتمہ نہیں ہوگا، خطے میں امن و سکون، خوشحالی اور انسانیت کا خواب ادھورا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان اور بلوچ قوم کے درمیان تاریخی اور برادرانہ تعلقات ہیں، ہر مشکل وقت بلوچ اور پشتون صدیوں سے ایک دوسرے کی میزبان رہے ہیں اور آج بھی غیرت مند افغانوں کی سرزمین افغانستان نے یہ روایات برقرار رکھی ہے،جب افغانستان خود مشکلات سے دوچار تھا لیکن اس کے باوجود اس نے ہزاروں بلوچ مہاجرین کو اپنی سرزمین پر پناہ دی۔ اسی مہمان نوازی کے جرم اور دیگر تزوایتی مقاصد کے لیے پاکستان نے داعش کی لبادھے میں افغان وزیر برائے مہاجرین خلیل الرحمان حقانی کو نشانہ بنایا، گزشتہ سالوں میں افغانستان میں خود بلوچ مہاجرین نشانہ بنتے رہے ہیں لیکن اب دشمن نے مہاجرین کی وزیر کو نشانہ بناکر ثابت کردیا کہ دہشت گردی کی مرکز و منبع پاکستان کی فطرت کبھی نہیں بدلتی اور اس سے خیر کی امید حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ افغانستان کی تباہ حالی اور چالیس سالہ جنگ کی بنیادی وجہ پاکستان کی پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی نوآبادیاتی سوچ ہے جو افغانستان کو ایک آزاد ریاست کے بجائے اپنے پانچویں صوبے کے طور پر دیکھتی ہے۔ ماضی قریب میں پاکستانی ریاست نے مختلف صورتوں میں ان عزائم کا اظہار کیا ہے لیکن افغان قوم کا قومی مزاج ہمیشہ سے ایسا رہا ہے کہ وہ کسی بھی قابض یا توسیع پسند کو اپنی سرزمین پر برداشت نہیں کرتی۔ ماضی سے لے کر موجودہ دور تک افغانوں نے بیرونی یلغاروں کے خلاف مختلف سیاسی نظریات اور حکمت عملی کے تحت مزاحمت کی ہے۔

آج پاکستان، افغان سرزمین پر اپنی تزویراتی حکمت عملی اور سازشی چالوں کی ناکامی کے بعد، داعش جیسی شیطانی تنظیموں کے ساتھ شراکت داری کر رہا ہے تاکہ افغانستان کو ایک مستحکم اور خودمختار ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرنے سے روکا جا سکے لیکن افغان قوم نے تاریخ کے شعور اور پنجابی نوآبادیاتی سوچ کا تجزیہ کر کے یہ سیکھ لیا ہے کہ اپنی سرزمین کو ہر قسم کے بیرونی اثر و نفوذ سے آزاد رکھنا ہی ان کی بقا کا ضامن ہے۔ پینتالیس سالہ جنگی ہولناکیوں کے بعد حاصل ہونے والا یہ تاریخی شعور اب اس بات کی قوی امید ہے کہ افغان قوم پنجابی سازشوں کا مزید شکار نہیں ہوگی اور ایک باوقار اور خودمختار افغانستان کے قیام کو یقینی بنائے گی۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ خطے میں عدم استحکام کو فروغ دیا ہے اور افغانستان میں عدم استحکام اور بدامنی اس کی اسٹریٹجک پالیسی کا حصہ رہی ہے، آج نوآبادیاتی پنجابی ریاست بلوچ قوم کی تاریخی قربانیوں، بے مثال حوصلے پر مبنی بلوچ قومی تحریک آزادی اور دیگر قومی تضادات کے سر اٹھانے کی وجہ سے سیاسی، معاشی اور عسکری عدم استحکام کے سبب تنزلی کی جانب بڑھ رہی ہے، ہماری جدوجہد ایک آزاد بلوچستان کے لیے جاری رہے گی اور بلوچ ایک پرامن افغانستان کے لیے ہمشیہ پرعزم رہیں گے، بلوچ اور افغان اقوام کے درمیان برادرانہ تعلقات، خطے میں ایک روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتے ہیں، جہاں آزادی، امن اور خودمختاری کے خواب حقیقت کا روپ دھار سکیں۔