دمشق میں بشار الاسد کی حکومت ختم ہو گئی ہے، اور باغی گروپوں نے دارالحکومت سمیت ملک کے کئی اہم علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ دمشق میں باغیوں کی پیش قدمی کے بعد حلب اور دیگر علاقوں میں بھی اہم فوجی اور حکومتی تنصیبات ان کے قبضے میں آ گئی ہیں۔
باغی گروپوں کی کامیابیاں
ترکی کی حمایت یافتہ شامی قومی فوج (SNA) اور شدت پسند تنظیم حیات تحریر الشام (HTS) نے اس پیش رفت میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، باغیوں نے فوجی اڈے، ہوائی اڈے، اور اسلحہ ڈپو قبضے میں لے کر اپنی طاقت مستحکم کر لی ہے۔ اس کے علاوہ، شمالی شام کے کرد علاقوں میں بھی باغی گروپوں نے حملے کیے، جس سے ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔
کرد علاقوں سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق، 1,50,000 افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں، جبکہ اغوا اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔
غیر یقینی صورت حال اور عالمی خدشات
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس پیش رفت کے بعد شام میں عدم استحکام مزید بڑھ سکتا ہے۔ HTS کے کنٹرول میں آنے کے بعد افغانستان جیسی سخت شریعت پر مبنی حکمرانی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، تاہم تنظیم کی قیادت عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے نرم رویہ اپنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
بین الاقوامی برادری شام میں باغیوں کے قبضے کے بعد کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کے حوالے سے شدید تشویش کا شکار ہے۔ کئی رپورٹس کے مطابق، کیمیائی ہتھیاروں کی فیکٹریز اب باغیوں کے کنٹرول میں ہیں، اور یہ معاملہ خطے میں مزید کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔
انسانی بحران اور خطے پر اثرات
شام میں جاری انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اور بنیادی انسانی ضروریات کی عدم دستیابی سے صورتحال خراب ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ، ایران، روس، اور ترکی جیسے ممالک کے مفادات بھی متاثر ہو رہے ہیں، جس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں
تجزیہ کاروں کے مطابق، شام میں حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی خلا ملک کو طویل مدتی عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ باغی گروپوں کے درمیان داخلی کشیدگی، کرد فورسز کے ساتھ تصادم، اور بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت مستقبل میں مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے عالمی برادری کے لیے ضروری ہے کہ شام کے عوام کو انسانی امداد فراہم کرے اور ملک میں سیاسی استحکام کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔