استاد، رہبر یا باپ
تحریر: زالان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج میرا قلم لرز رہا ہے میرا عقل یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ رہبر لکھوں اُستاد لکھوں یا باپ لکھوں استاد اسلم بلوچ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے اپنی بصیرت اور قیادت سے ایک بکھری ہوئی تنظیم کو اس قدر مضبوط اور یکجا کر دیا کہ دشمن کی سوچ وہاں ختم ہوتی ہے جہاں استاد کی سوچ کا آغاز ہوتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ایک کامیاب رہنما کا کام صرف حال کے مسائل حل کرنا نہیں بلکہ مستقبل کے لیے ایک مضبوط راستہ تیار کرنا ہے۔ استاد نے تنظیم کے ہر فرد کے اندر آزادی اور خودمختاری کا ایسا جذبہ پیدا کیا کہ ان کی سوچ، عمل اور قیادت تنظیم کے ہر رکن کی زندگی کا حصہ بن گئی۔ انہوں نے اپنی فکر کو اس طرح تنظیم میں ڈال دیا کہ آج بھی اگر ان کا ذکر آ جائے تو تنظیم کا ہر فرد عقیدت سے لرز جاتا ہے اور ان کے اصولوں پر عمل کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔استاد نے تنظیم کو ایسی کامیاب فکر اور قیادت دی کہ آج تنظیم کو کسی نئے رہنما کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ان کی بصیرت اور ان کے اصول اس قدر مضبوط ہیں کہ تنظیم کا ہر فرد خود ایک رہبر کی حیثیت رکھتا ہے۔
استاد اسلم بلوچ نے ثابت کیا کہ ایک سچے رہبر کی سوچ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہے اور نسلوں تک زندہ رہتی ہے۔ استاد ایک معلم اور ولی تھے۔ ان کی ہر بات اور ہر لفظ میں ایسی تاثیر تھی کہ بہت کم وقت میں ان کی تعلیمات نے گہرے اثرات چھوڑے۔ ان کے الفاظ صرف سننے کے لیے نہیں بلکہ دلوں میں اترنے کے لیے ہوتے تھے، اور ان کی ہر فکر نے اپنی روشنی سے اندھیروں کو دور کر دیا۔ استاد اپنے عمل سے سکھاتے تھے۔ وہ خود قربانی اور اخلاص کی جیتی جاگتی مثال تھے، اور یہی وجہ تھی کہ ان کی تعلیمات نے اتنا جلدی اثر دکھایا۔ ان کی ہر فکر، ہر نصیحت، اور ہر اصول نے وہ رنگ لایا جو تاریخ میں بھی کہیں نظر نہیں آتی۔
استاد ایک حقیقی جینیئس تھے۔ جن کی ہر چھوٹی سے چھوٹی حکمت عملی بھی دشمن پر قیامت بن کر گری۔ استاد کی ہر حرکت میں ایسی چالاکی اور حکمت چھپی ہوئی تھی کہ دشمن کے لیے ان کا سامنا کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ کامیابی صرف طاقت سے نہیں بلکہ حکمت، فہم اور سمجھ سے آتی ہے۔ استاد اسلم بلوچ نہ صرف ایک عظیم رہنما تھے، بلکہ وہ ایک ایسے باپ بھی تھے جنہوں نے اپنی قوم اور نسل کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔ وہ ایک ایسے باپ تھے، جنہوں نے اپنے بیٹے کو وطن کی خاطر قربان کر دیا، اور اپنے جگر کے ٹکڑے کو بہادری اور غیرت کے ساتھ دشمن کے سامنے بھیج دیا۔ تاکہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر، آزاد اور خودمختار وطن چھوڑ جائیں۔ ان کا یہ فیصلہ اس قدر عظیم تھا کہ وہ صرف ایک والد کی محبت سے نہیں بلکہ ایک رہنما کی قربانی سے بھی بھرا ہوا تھا۔ اس قربانی کی شدت کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو استاد کی فکر اور اس کی قربانی کی حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے۔ استاد اسلم بلوچ نے جو قربانی دی، وہ نہ صرف ایک باپ کی قربانی تھی بلکہ ایک قوم کی تقدیر بدلنے کی قربانی تھی۔
یقیناً، استاد اسلم کی قربانی کوئی عام قربانی نہیں تھی۔ یہ قربانی انسان کی سوچ اور فہم سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ جانتے تھے کہ کسی قوم کو اس کی حقیقت، آزادی اور خودمختاری دینے کے لیے اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ضروری ہے، اور یہی کام انہوں نے اپنی زندگی بھر کی جدوجہد کے ذریعے کیا۔ استاد اسلم نے یہ سکھایا کہ اگر ہمیں وطن کی خاطر کسی کی قربانی دینی پڑے تو اس سے ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہیے۔
یہ قربانی صرف خون اور جسم کی نہیں، بلکہ ایک پوری نسل کے لیے تھی۔ استاد اسلم بلوچ نے اپنی قربانی سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ صرف اپنے بیٹے کا نہیں، بلکہ اپنے پورے ملک اور قوم کا باپ تھا۔ اس قربانی کے بعد، کوئی بھی شخص استاد کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرے، تو اس کے قدم صرف استاد کے نقشِ قدم پر چل کر ہی اس کی روح کو تسکین دے سکتے ہیں۔ استاد کی روح کو سکون اس میں ہے کہ ہم نہ صرف اس کی قربانی کو یاد کریں، بلکہ اس کی فکر، اس کی نظریات، اور اس کی رہنمائی پر عمل کر کے اپنے وطن کو اس کے خوابوں کی حقیقت بنا سکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔