آواران اور مزاحمت کار خواتین
تحریر: الماس بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
خواتین کسی بھی معاشرے کی اہم ستون ہوتی ہیں. کسی بھی معاشرے کو تاریک راہوں سے نکال کر روشنی کی طرف لیجانے والوں میں وہاں کے خواتین کا بھی ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ کردار سیاسی، سماجی اور مزاحمتی بھی ہو سکتا ہے – آج ہم بات کرتے ہیں کہ بلوچستان کے علاقے آواران کی۔ آواران ہمارے سرزمین کا ایک ایسا حصہ ہے جہاں لوگ بنیادی سہولیات سے مکمل محروم ہیں۔ وہ تعلیم ،صحت ،پانی ہو یا دیگر ضروریات زندگی ۔ یہاں کے خواتین کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی یا کشیدہ کاری ہے، جس سے وہ اپنے بچوں کا گزر بسر کرتے ہیں۔ انتہائی غربت بلکہ غربت سے بھی نیچے کی لکیر میں یہ اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔تعلیم سے محروم ان خواتین پہ ایک نظر ڈالیں. آپ ان سے بات چیت کریں ان سے گفتگو کریں ان سے سوال کریں۔ان کا شعوری سطح کیا ہے؟ آپ جان جائیں گے؟
یہ شعور ،یہ فکر اور نظریہ ان خواتین کو ان کے سر زمین پر ہونے والے مظالم نے دیا ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ انسانیت کیا ہے؟ یہ جانتے ہیں کہ درد کیا ہے؟ یہ وہ خواتین ہیں جو اس ریاست کے ظلم کو سہتے سہتے اپنے بچوں کو جوان کرتے ہیں ۔
آپ اگر یہاں کے خواتین سے ملتے ہیں اور انکے حقوق کے حوالے سے سوال کرتے ہیں ۔ یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ ہمارے بچے تعلیم سے محروم ہے۔ کبھی یہ شکوہ نہیں کریں گے کہ ہمارے پاس بنیادی سہولیات نہیں ہے۔ یہ وہ خواتین ہے جو اس ریاست کے فرسودہ نظام تعليم کو ماننے سے انکاری ہیں۔
یہ خواتین فکری حوالے سے، نظریاتی حوالے سے اور مزاحمتی سوچ لیکر اپنے قوم کے اوپر ہونے والے مظالم کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ قومیت کیا ہے۔ ہمیں قومی تاریخ کا پتہ ہے ہمیں پتہ ہے تم ایک دردمند قوم ہو ،باہر سے آۓ ہو تمھیں ہمارے درد ،تکلیف اور اذیت سے کوئی سروکار نہیں ۔
یہ وہ خواتین ہے جن کے بچے پڑھنے کے لئے کسی ٹوٹی پھوٹی پرائمری سکول کے عمارت میں ہر سہولت سے محروم ہو کے ننگے پاؤں، پٹھے کپڑوں کے ساتھ جاتے ہیں۔
لیکن ان کا شعوری سطح دیکھ کر ایک لکھنے والا مصنف بھی حیران رہ جاۓ گا کہ ان ماؤں نے اپنے بچوں کی فکری ، نظریاتی اور شعوری حوالے سے جو تربیت کی ہیں وہ کسی یونیورسٹی ، کالج نہیں کر سکتی۔
آواران کے ان سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ میں بسنے والی بلوچ مائیں اپنے اولاد کی خوشحال ذندگی کا خواب دیکھ تو رہے ہیں مگر یہ مائیں خوب جانتے ہیں کہ اس خوشحال مستقبل کے لئے انھیں عظيم قربانیاں دینے پڑیں گے۔ اور آج یہ مائیں اپنی قربانیوں سے ایک عظیم تاریخ لکھ رہے ہیں۔
یہ نظریہ ،یہ فکر ان ماؤں کو کہاں سے ملی ہے؟
یہ پڑھے لکھے نہیں ہیں لیکن جانتے ہیں کہ ہمارے اوپر جو ظلم ہو رہا ہے وہ کون کر رہا ہے؟ وہ کیوں کر رہا ہے؟۔
یہ وہ مزاحمت کار خواتین ہیں جن کے پاس آپکے تمام سوالوں کے جواب ہیں ۔
تعلیم نہ سہی۔۔۔
لیکن اصل بات کہ وہ اپنے قومی جدوجہد سے خوب واقف ہیں۔
وہ واقف ہیں کہ آج بلوچ قوم پر جو ظلم ڈھا رہے ہیں ۔اور ہم اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ ہماری سر زمین پر ایک غیر قوم آ کہ ہماری ذندگیوں کو اتنا اذیت ناک کیوں بنا رہے ہیں؟
کتنی مائیں ہیں جو ایک نہیں اپنے دو دو بیٹوں کو اپنی سر زمین کی آزادی کے لئے قربان کر چکے ہیں۔
یہ وہی مائیں ہیں جو فوجی کیمپوں سے اپنے بیٹوں کی لاشیں وصول کر چکے ہیں، اپنے شہید بیٹوں کے لاشوں کو انقلابی گانوں اور انقلابی نعروں کے ساتھ کندھا دے کر دفنایا ہے –
وہی موجود پاکستانی فوجی سوال کرتے ہیں کہ تم لوگ یہ گانا کیوں گا رہے ہو؟
یہ تالیاں کیوں بجا رہے ہو؟
ان دلیر ماؤں میں سے ایک آگے بڑھ کر کہتی ہے کہ اپنے دلیر اور سینے پہ گولیاں کھا کر شہید بیٹے کو خراجء عقیدت پیش کرتے ہیں اس کی دلیری کو سلامی پیش کر رہے ہیں اپنے گانوں میں۔
اس ماں کی الفاظ سن کے مجھے چی گویریا جیسے عظیم گوریلا جنگجو کو پڑھی تھی مجھے وہ الفاظ یاد آۓ،جو کبھی تاریخ میں چی گویرا کہا تھا کہ ہمارے جنازے ماتمی ترانوں کی بجاۓ توپوں کی گن گرج میں اٹھاۓ جاۓ تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ انقلابیوں کے جنازے جا رہے ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ یہ اس سرزمین کی عظیم مائیں ہیں جو اس وقت اس پاکستانی فوجی کو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بیٹے کو رخصت کرتے وقت یہ کہا تھا کہ یہ جنگ آذادی کی جنگ ہے۔ یہ بلوچستان کی سرزمین کی جنگ ہے۔ یہ بلوچ قومی بقا کی جنگ ہے ۔یہ بلوچ قومی شناخت کی جنگ ہے۔
اس جنگ میں قربان ہو کر آنا لیکن دشمن آگے سر جھکا کر نہیں آنا۔
یہ ان دلیر ماؤں کے الفاظ ہیں جھنوں نے آواران کی سرزمین پر اپنے بیٹوں کو جنگ کے لئے روانہ کیا اور رخصت کرتے وقت اور اپنے لخت جگر کی لاش کو کندھا دیتے وقت بلوچ قوم کو پیغام دیا۔
یہ سرزمین جسے بلوچستان کہتے ہیں۔
یہ بنجر نہیں زرخیز ہے، بزدل نہیں دلیر بیٹا جنتا ہے
ایک اور اس سر زمین کی جس کا دلیر بیٹا اس قبضہ گیر کے فوج سے لڑتے لڑتے کہیں دشمنوں کو موت کے گھات اتارا اور جب گولیاں ختم ہونے لگے تو آخری گولی اپنے سینے میں اتار دیا۔
جب یہ دلیر پہاڑوں پہ گیا لڑنے کے لئے تو اس نے اپنے ماں سے اجازت تک مانگا کہ اپنے سرزمین کی آذادی اور اپنے قوم پہ ہونے ظلم کے لئے آج نکال رہا ہوں۔ اس ماں نے اپنے نڈر بیٹے کے کاندھے پہ دعا کی تپکی دی اور رخصت کرتے ہوۓ کہا کہ دشمن کے ساتھ لڑتے ہوۓ سر کٹوا کے آنا لیکن دشمن کے آگے سر جھکا کے نہیں آنا۔ایسے رخصت کرتے ہیں پلوچ مائیں اپنے شہزادوں کو محاذوں پر جاتے وقت۔
پہاڑوں پہ جانے کے بعد اس ماں کے گھر پر اس ریاست کے فوج کی کئی چھاپے مارے
بقول اس ماں کی کہ ایک بار چھاپہ آیا تو ان فوجیوں میں عام سپائیوں کے ساتھ ایک فوجی میجر بھی تھا وہ میجر اس ماں سے پو چھا کہ آپ کے کتنے بیٹے ہیں تو اس ماں نے اپنے سب بیٹوں کے نام لیتے لیتے جب اس کے بیٹے جو پہاڑوں پہ اپنے قومی محاذ سنبھالنے گیا تھا جس کا نام مودی تھا وہ مودی کا نام مودی جان کہتی ۔
یہ میجر تین بار یہی سوال کرنے کے بعد اس کو
۔اس ماں سے یہی جواب تین بار ملا کہ مودی جان
یہ میجر اس ماں کے قریب سے اٹھا اور مودی جان کے بھائی کے قریب آ کے کھڑا ہوگیا اور کہا کہ جب یہ ماں تم لوگوں کا نام لیتی ہے تو صرف نام ہے لیکن جب مودی کا نام لیتی ہے تو مودی جان۔
وہ میجر جاتے ہوۓ مودی کے ماں سے کہا تھا کہ آپ جیسی دلیر مائیں ہیں جو مودی جیسے مرد پیدا کر رہے ہیں اس سرزمین کے لئے۔
میں سمجھا تو کبھی مودی کانام ایسا نہیں لے گی۔
ان شیرزال ماؤں کے حوصلوں کو دیکھ آج دشمن بھی لرز رہا ہیں۔
یہ ہیں وہ مزاحمت کار مائیں ،وہ جہد کار مائیں میرے سرزمین کی دلیر مائیں جنھوں نےایسے اولاد جنے ہیں وہ آخری گولی اپنے رکھ لیتے ہیں لیکن دشمن کے آگے سر جھکانے کو قبول نہیں کرتے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں