یہ کہاں آگئے ہم ؟ – پری گل بلوچ

280

یہ کہاں آگئے ہم ؟

تحریر: پری گل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دو سال سے اپنوں سے دور مغربی ملک ماحول موسم اور کلچر نے دماغ جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ بے زبانوں کی طرح لوگوں کے چہرے تکنا اور روبوٹ کی طرح گوگل سے ترجمہ کرکے دکھانا دکانوں اور ہسپتالوں میں کسی جنگلی کی طرح ایسے شخص کی تلاش جو آپکی بات سمجھ سکے۔ سلام کے لئے مردوں کے بڑھتے ہاتھ اور کوچرائی کیساتھ بتانا کہ ہم ہاتھ نہیں ملاتے اور بہت سے ناقابل بیان واقعات غرض زندگی مکمل تبدیل ہوگئی ۔

اس کے علاوہ دوسری بڑی تبدیلی ٹویٹر پہ بلوچ سیاست میں قدم رکھنا تھا ۔ ایک مولانا صاحب ہیں جنکی وکالت نے ہمیں ایک نئی دنیا سے متعارف کرایا ہمارے بچے ایک ترانہ سنتے تھے کہ ” اتکگ نون میدان ء مولانا مولانا” ہمیں کیا پتہ تھا وہ میدان محشر ہے جس میں مولانا کی پیروی کرتے ہوئے میں پہنچی اور مجھے محشر میں چھوڑ کر مولانا صاحب اسمبلی کی جنت میں چلے گئے۔

چھوٹی سی دنیا میں جسے جو بہتر لگتا ہے کرے لیکن یہ ضرور سوچے کہ اس سے کسی دوسرے کو کتنا بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اب آتے ہیں اپنے میدان حشر میں جہاں سے آگے دو الگ دوزخ ہیں ایک دوزخ بلوچستان کی سر زمین جہاں جنگ کی آگ نے لوگوں کے مزاج سیاہ کردئیے ہیں۔ چڑچڑے بد ظن حاسد اور پاکستانی منفی رویے بدرجہ اتم موجود ۔ یا تو کسی پاکستانی زندان میں یا مشکل حالات کے نظر نہ آنے والے زندان کے عذاب میں اور بے بسی ۔ روتی، احتجاج کرتی اور ریاست سے مار کھاتی بہنیں، روڈوں پہ احتجاج کے دوران بڑے ہونے والے بچے شوہروں کا انتظار کرتی بیویاں اور لاپتہ بیٹوں کے تصویریں صاف کرتے بزرگ والدین۔

دوسرے دوزخ کا نظارہ اس سے بھی پریشان کن ہے یہاں پہلی دوزخ کی تمام خصوصیات کے علاوہ یہ اضافی عذاب یہ ہے کہ یہ بھی میری طرح بڑی عمر میں کسی دوسرے ملک منتقل ہوئے انکے ساتھ بھی یقینا وہی کچھ ہوا ہوگا جو میں نے بیان کیا یہاں کے ماحول نے نہیں جتنی بھی آزادی دی پیروں میں وطن سے محبت کی زنجیر نہیں توڑ سکی ۔ وہاں موجود اپنے پیاروں کے انٹرنیٹ سے معلوم ہونے والے حالات اور وہی بے بسی۔

ایسے حالات میں میری ملاقات بیرون ممالک مقیم دوسری دوزخ کے لوگوں یا خلائی مخلوق یعنی ٹویٹر اسپیسز پہ موجود بلوچوں سے ہوئی۔

شاندار استقبال ہمیشہ یاد رہے گا۔ یوں لگا بغیر ہیلمٹ کے میدان میں اترے ابھی بیٹ سیدھا بھی نہیں کیا اور 12 بالر بیک وقت جان بوجھ کر باونسر مار رہے ہیں استقبال سے ہی اندازہ ہوا یہاں تو گیم آف تھرون چل رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوا کہ یہاں غریبوں ( غریب بمعنی شریف اور معصوم) کی جگہ نہیں خلا ( ٹویٹر اسپیس)میں رہنا ہے تو اس جنگ میں شامل ہونا ہوگا ۔ یہاں ایسے موضوعات پر بحث ہوتی ہے کہ واللہ کبھی کبھار لگتا ہے ہم عباسیوں کے آخری دور کے بغداد کی کسی مجلس میں بیٹھے ہیں جہاں ہاتھ ناف سے اوپر باندھنے ہیں یا نیچے اس پر بحث ہورہی ہے اور ادھر منگول سارا بغداد ختم کرچکے ہیں۔

جھنڈے کا سبز کہاں اور سرخ کہاں ہوگا ۔ آیا جھنڈا یہی ہوگا؟

بلوچ کی سرحدیں کہاں تک ہیں یعنی کہاں لڑنا ہے؟ بلوچ سندھی ہیں یا نہیں؟ مذہبی بھی بلوچ ہیں یا بلوچستان میں رہنے والی دو الگ مخلوقات ہیں مذہبی ملا اور قوم پرست سیکولر ( سابقہ سرخے ) ۔

ملا تو ملا تھا چلیں اس سے نہیں بنتی بغدادی مولویوں کا آپس میں کیا مسئلہ ہے؟ یہ جاننے کے لئے مجھے زیادہ وقت نہیں لگا۔ شروع میں عام بلوچوں کی طرح میں بھی یہی سمجھتی تھی کہ یہ ایک ہیں لیکن بعد میں اندازہ ہوا میری مخالفت میں ایک ہوئے ہیں اور جہاں کسی نئے مہمان کی مخالفت کرنی ہوتی ہے یہ اکھٹے ہوکر تاثر دیتے ہیں یہاں پہلے ہی بہت رش ہے آپ آنے کی زحمت نہ کریں۔ کبھی کبھار ان سے یوتھیوں اور پٹواریوں کا گمان ہوتا ہے۔ ان بیچاروں کے مسئلے ایک ہی ہوتے ہیں لیکن فرقوں کی مجبوری کے باعث الگ الگ امامت ہوتی ہے۔ ایک ہی شہر میں الگ الگ مقام پہ ایک ہی دن احتجاج کرتے ہیں۔ درمیان میں بیچارے غریبوں کا سمجھ نہیں آتی کس کے احتجاج میں شرکت کریں جو دوسرا ناراض نہ ہو۔ انکی خامیوں کی فہرست بہت طویل ہے باقی وہ خود بھی خود کا تھوڑا سا وقت دے کر دیکھ لیں کہ دنیا انہیں کیا کہتی ہے۔

یہاں ایک اور قسم کا لوگوں سے بھی واقفیت ہوئی جنہیں گراونڈ میں موجود جہدکار یا سرمچار کہتے ہیں۔ خلا میں اسکی صرف تعریف کرنی ہوتی ہے اور اسے پاک فوج کی طرح صرف سلام کرنا ہوتا ہے۔ اگر انکی کسی غلطی کا تذکرہ ہوگیا تو گالیوں کے گٹر میں پھینکے جانے کے انتظامات دو منٹ میں ہوجاتے ہیں۔ سرمچار یہاں خدا اور رسول سے بالاتر کوئی مخلوق ہے جہاں خدا اور رسول پہ” لبرلک” کہتے ہیں کہ تنقید کسی پہ بھی کی جاسکتی ہے مذہبی کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ تنقید برداشت نہیں کرتے لیکن اس مخلوق پہ قاعدے بدل جاتے ہیں۔ یہ بھی باہر بیٹھے لوگوں کے بھائی ہیں ۔ ان کے بھی الگ الگ فرقے ہیں اور جانبدار صحافی بھی ہوتے ہیں جو ایک دوسری کی کاروائیوں کا ذکر نہیں کرتے ۔ جبکہ کھبار ایک دوسرے کا مذاق بھی اڑاتے ہیں ۔

یہاں ادباء کا حلقہ بھی ہے ۔ جوکہ حسب ذائقہ سیاست کا حصہ بنتے ہیں۔ اگرچہ سیاست کوئی بھی کرسکتا ہے اس پر کوئی پابندی نہیں لیکن ادیب اس پر بڑا ظلم کرتے ہیں کیونکہ تخیل کی جس دنیا سے انکا تعلق ہے انکا ماضی سے ربط ہوتا ہے ۔جنکہ سیاست حال اور مستقبل کے فیصلوں کی جگہ ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ افرادی قوت کی کمی ہے تو لھذا یہاں سب کو سب کام کرنے پڑتے ہیں جو چند لوگ ہوسکتا ہے اچھی طرح کر پاتے ہوں لیکن ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

تو یہ تھا میری قوم سے میری ایک مختلف ملاقات کا حال ۔ امید کے حالات بہتر ہونگے تو ہم بھی بدلیں گے آزاد اور خوشحال ہونگے تو رویے بھی شاہانہ ہونگے ان شاءاللہ غلامی میں یہی ہوتا ہے ہم کوئی انوکھے نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں