فرزانہ رودینی، رخسانہ دوست، حفظہ بلوچ، صدف بلوچ اور ادیبہ بلوچ نے ایک مشترکہ پریس ریلیز بیان کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالیوں اور جبری گمشدگیوں کے سنگین مسئلے پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے متحد ہیں، جنہیں ریاستی فورسز نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا، اور جو اب بھی لاپتہ ہیں۔
سیف اللہ رودینی، جو فرزانہ رودینی کے بھائی ہیں، کو 22 نومبر 2013 کو سوراب سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ محمکہ پولیس میں ملازم تھے۔ ان کی گمشدگی کے بعد نہ صرف انصاف کی کوئی راہ دکھائی گئی، بلکہ ان کی تنخواہ بھی بند کر دی گئی، جو ان کے خاندان کی کفالت کا واحد ذریعہ تھی۔
عظیم دوست بلوچ، جو رخسانہ دوست کے بھائی ہیں، کو 3 جولائی 2015 کو گوادر سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ اب تک لاپتہ ہیں، اور ان کی شاعری کے ذریعے ہم ان کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں۔
چنگیز بلوچ، جو حفظہ بلوچ کے بھائی ہیں، کو 11 جنوری 2014 کو خضدار سے جبری گمشدہ کیا گیا۔ ان کے خاندان نے اس دردناک حقیقت کا سامنا کیا ہے کہ وہ اب بھی لاپتہ ہیں، جس کی وجہ سے وہ اجتماعی اذیت میں مبتلا ہیں۔
امیر بخش بلوچ، جو صدف امیر بلوچ کے والد ہیں، کو 4 اگست 2014 کو کلانچ سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ صدف نے اپنے والد کی تصاویر دیکھی ہیں، لیکن اگر یہ تصاویر نہ ہوتیں تو وہ اپنے والد کا چہرہ بھول جاتیں۔
ظہیر بلوچ، جو ادیبہ بلوچ کے والد ہیں، کو 13 اپریل 2015 کو حب چوکی سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی گمشدگی نے ان کے خاندان میں بے چینی اور درد کی ایک لہر دوڑا دی ہے، اور ان کے والدین آج بھی ان کی راہ تکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری ان کہانیوں میں درد، الم، اور بے بسی کی ایک دردناک داستان چھپی ہوئی ہے۔ سیف اللہ کے والدین اپنے بیٹے کے انتظار میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے، جبکہ ظہیر بلوچ کی والدہ بھی اپنے بیٹے کی راہ دیکھتے ہوئے دنیا سے گزر گئیں۔ دوسرے جبری لاپتہ افراد کے والدین بھی اپنے بوڑھاپے میں بے بسی اور درد کے شکار ہیں۔
لواحقین نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جبری گمشدگیوں کے اس سنگین مسئلے کی تحقیقات کی کریں، ہمارے لاپتہ عزیزوں کی فوری بازیابی کے لیے موثر اقدامات اٹھائیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی حمایت کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری آواز کو سنا جائے، اور ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ہماری اس درخواست پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور فوری اقدامات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب مل کر اس ظلم کے خلاف لڑیں گے اور انصاف کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔