ہمارے عظیم ہستیاں
تحریر: بادوفر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
زندہ و مستحکم اقوام کی سالمیت، خوشنودی، کامیابی اور خوشحالی کے پیچھے ایسے تاریخ ساز شہید و ہیروز کارفرما ہوتے ہیں جن کی عظمت اور شان کے سامنے اذہان سُن ہو جاتے ہیں اور انسانی فکر کی روانگی سجدہ زیر ہوتی ہے۔ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے درمیاں بھی ایسے کردار سر اُٹھا کر قابضین کے سامنے دیوار بنتے رہے اور آخری سانس تک وطن کے دفاع میں بلاشکایت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے۔ جب بھی اپنے بلوچ قومی ہیروز، اپنے عظیم شہدا کے بارے میں کچھ لکھنے کیلئے قلم اُٹھاتا ہوں تو انکی جرات، حوصلے اور بہادری کے متعلق لکھنے کیلئے الفاظ نہیں ملتے- وہ اُس سطح تک پہنچ چکے ہیں، جہاں ایک عام سوچ اپنے پروں کو پڑپڑانے کے باوجود بھی پہنچ نہیں سکتا۔ جہاں ذہن کی پرواز ایک کونج کی مانند سورج کو چھونے کی کوشش میں اُڑان تو بھرتی ہے، لیکن اُفق پر فقط روشنی سے منور ہونے کے علاوہ محور و منزل تک پہنچ نہیں سکتی۔ وہ روشنی کے مینار بن چکے ہیں؛ یا ایسے چمکدار ستارے جنہیں چھوا تو نہیں، جا سکتا، لیکن اُن کے افکار کی روشنی کو آنکھوں کی تاریکیوں کو مٹانے کیلئے نظر میں بھرا جا سکتا ہے۔ اُن کے آفتابی فکر کو باطن کے ویران خانوں میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کیا جا سکتا ہے اور اُن کی بے غرض دیوانگی کے سُروں کو خاموشی اور مایوسی کے سکوت کیلئے مہلک ہتھیار بنایا جا سکتا ہے۔ ایک نامعلوم عظیم انسان کی کہاوت ہے جس نے غالباً بلوچوں کی طرح کچھ سخت دن آزمائے ہونگے، کہتا ہے کہ “شہداء سورج کی طرح پوری دنیا سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی قربانی آنے والی نسلوں کے لیے راہیں روشن کرتی ہے۔”
قومی شہداء کی قدر اور موثر جنگی حکمت عملی قوم کی شناخت اور لچک کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ شہداء اپنے وطن کے لیے آخری قربانی کو مجسم کرتے ہیں، جو ہمت، عزم اور جدوجہد کی اجتماعی یادداشت کی علامت ہے۔ وہ تحریک کے مینار کے طور پر کام کرتے ہیں، حب الوطنی کو جنم دیتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو آزادی اور انصاف کی اقدار کو برقرار رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ موت جیسی طاقتور سچائی کو بھی بخوشی اپناتے ہیں اور روح کی جدائی کو بلا خوف و خطر قبول کر کے زندہ و جاوید ہونے کے سفر میں چل پڑتے ہیں۔ اُن کی شجاعت کے پیچھے ایک پختہ اعتماد کارفرما ہوتی ہے جو اُنہیں تمام مصائب کو برداشت کرنے کیلئے فکری و ذہنی طور پر قوتِ مدافعت فراہم کرتی ہے؛ ایک اعلیٰ اعتماد کہ اُن کے خون کی روشنی تاریکی کو خاک میں ملاتی ہے اور قوم کے اندر ناقابلِ تسخیر جذبہ و امید پیدا کرتی ہے۔ ان جیسے بہادر سپوتوں کیلئے Gilbert K. Chesterton اپنی کتاب The Man Who Knew Too Much میں کہتے ہیں کہ یقیناً سب سے زیادہ بہادر وہ ہوتے ہیں جو اپنے سامنے موجود چیزوں کو واضح طور پر دیکھتے ہیں، فتح اور شکست انکے سامنے یکساں ہے اور اس کے باوجود وہ اس سے ملنے کے لیے نکلتے ہیں۔
تاریخ اُنہی اقوام کو موت کے گھاٹ اُترنے اور شناخت و تشخص سے مبرا ہونے سے روکتی ہے جو اپنے ماضی کی دردناک واقعات کو ذہن سے نہیں مٹاتے اور عصر حاضر تک پہنچنے کے پیچھے عظیم شہیدوں کے تکالیف اور قربانیوں کو فراموش نہیں کرتے ہیں۔ وہ جو اپنے شہیدوں کے نقشِ پا کو بہ صد احترام چھو کر مسلسل سفر در سفر آگے بڑھتے ہیں، وہ کامیابی کے دہانے تک پہنچ کر تاریخ ساز بن جاتے ہیں۔ ہٹلر کی کنسنٹریشن کیمپ اور ہولوکاسٹ کا تجربہ کرنے اور بچ جانے والے آسٹریا کے نیورولوجسٹ، ماہرِ نفسیات اور مصنف Viktor E. Frankl اپنی کتاب Man’s Search for Meaning ہولوکاسٹ کے شہداء کی تکالیف اور قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “دوستووسکی نے ایک بار کہا تھا کہ میں فقط ایک چیز سے ڈرتا ہوں اور وہ اپنے تکالیف کے لائق نہ بننا ہے۔ یہ الفاظ میرے ذہن میں اُس وقت آئے جب میں اُن شہداء سے آشنا ہوا جن کے کیمپ میں رویے، مصائب اور موت اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ باطن میں موجود آزادی کو کھویا نہیں جا سکتا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مصائب کو برداشت کرنے کے لائق تھے۔ جس طرح سے اُنہوں نے مصائب کو برداشت کیا، وہ ایک حقیقی اندرونی کامیابی تھی؛ ایک روحانی آزادی جسے کوئی بھی چھین نہیں سکتا اور جو زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنا دیتی ہے۔” یہ منظر نامہ مجھے اپنے اُن قومی ہیروؤں کی بہادری، ہمت اور برداشت کی یاد دلاتی ہے، جنہوں نے سنگلاخ پہاڑوں، ٹارچر سیلوں اور مصائب زدہ خطوں میں تمام تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے آزادی کی پرچم کو بُلند کیا اور ہماری زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنایا۔
ایک عظیم مقصد سے بے غرض محبت ایک انسان کو کسی حد تک جانے کی طاقت سے فیض یاب کرتا ہے۔ وہ خود کو تمام بندوشوں سے ماورا سمجھ کر فقط اپنے مقصد کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ اس مُسافت میں وہ زندگی اور موت کے درمیاں حائل اُس خوف کو بھی مات دیتا ہے جو من ہی من اُس سے مکمل طور پر وقف ہونے کی قوت سے روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہمارے شہداء ایسے ہی اعلیٰ عظمت کے مالک انساں ہیں جنہوں نے وطن کو گُل و گُلزار بنانے کیلئے آخری سانس تک اس خوف سے ماورا ہونے کی کوشش کی ہے۔ اُن کی بے غرض محبت دیکھ کر مجھے John Milton کی نظم Paradise Lost کے سطر یاد آتے ہیں جن میں وہ محبت کو کتنی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ یعنی:
Freely we serve, Because we freely love,
as in our will to love or not;
In this we stand or fall.”
شہداء کی قربانیوں سے حاصل ہونے والے اسباق اکثر فوجی حکمت عملیوں اور قومی پالیسیوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مورخ اور فوجی حکمت عملی ساز سن زو، “جنگ کے فن” میں اپنے آپ کو اور اپنے دشمن کو جاننے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں، “سب سے بڑی فتح وہ ہے جس کے لیے جنگ کی ضرورت نہیں ہے۔” یہ اصول اس خیال کی نشاندہی کرتا ہے کہ دانشمندانہ حکمت عملی تصادم کو روک سکتی ہے اور زندگی کو محفوظ رکھتی ہے، ان لوگوں کی قربانیوں کا احترام کرتی ہے جو میدان میں اُترچکے ہیں۔
جنگ محض دوسرے طریقوں سے سیاست کا تسلسل ہے۔ بحوالہ کتاب On War,” by Carl von Clausewitz
جنگ محض دوسرے طریقوں سے سیاست کا تسلسل ہے۔” یہ اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ شہداء کی قربانیاں میدان جنگ سے باہر ایک مقصد کی تکمیل کرتی ہیں؛ وہ قومی بیانیے اور سیاسی گفتگو کے لیے لازم و ملزوم بن جاتی ہیں۔ ان کی قربانیوں کے سیاق و سباق اور مضمرات کو سمجھنا قوموں کو مضبوط شناخت بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اور ایسی حکمت عملی بنائیں جو ان کی میراث کا احترام کریں۔ شہداء کی قدر ان کے تاریخی کردار سے بالاتر ہے، جو قربانی، لچک اور حکمت عملی کے گہرے اسباق کو بیان کرتی ہے۔ ان کے تعاون کو تسلیم کرنا نہ صرف یادداشت کو محفوظ رکھتا ہے بلکہ کسی قوم کی جاری بقاء اور خوشحالی کے لیے ضروری اسٹریٹجک گفتگو کو بھی تقویت دیتا ہے۔ اسی لیے اُن کرداروں کی قدر و منزلت میں نہ صرف بصد احترام کرنی ہے، بلکہ اُن کے خوابوں کو عملی جدوجہد سے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں