وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے زیر قیادت لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جاری طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5646 دن مکمل ہوگئے۔ تربت سے سیاسی و سماجی کارکن نبی بخش بلوچ، ظہور احمد بلوچ اور دیگر خواتین نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان کی ظلم و جبر کی تاریخ کے صفحات ریاستی عقوبت خانوں اور مقتل گاہوں کی بے رحم کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کا خون کبھی ریاستی عقوبت خانوں کی دیواروں پر چھینٹا گیا تو کبھی زمین کی خاک پر بہایا گیا۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ کئی ایسی تاریک راتیں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، جن میں شبیر غنی بلوچ جیسے بے خوف نوجوانوں نے ریاستی گولیوں کا سامنا کیا۔ کبھی ان ہی تاریکیوں کی آڑ میں نوجوانوں کی لاشیں ہیلی کاپٹروں سے گرائی گئیں، تو کبھی تیزاب سے جھلسے ہوئے، ڈریل شدہ لاشوں کو بے دردی سے ویرانوں میں پھینکا گیا۔
انہوں نے کہا کہ زیرو پوائنٹ کی سڑکوں سے لے کر پنجگو کے میدانوں تک، اور مرگاپ کی گلیوں سے لے کر شیراز کی وادی تک، ہر جگہ معصوم چہروں کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ پرامن جدوجہد کے علمبردار تھے، اور گناہ صرف یہ تھا کہ وہ ظلم کے آگے جھکے نہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ یہ شہدا، جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن اپنے عزم اور یقین کو کمزور نہ ہونے دیا، دنیا کی ان تمام مقدس تحریکوں کا حصہ ہیں جو انسانیت کے لیے لڑتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نوجوان، جو ہماری سرزمین کے بطن سے پھوٹے، صدیوں سے جاری جدوجہد کی تسلسل کو جوڑے رکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ ان میں سے کئی کے نام اور چہرے ہم نہیں جانتے، لیکن وہ سب ہمارے ہیرو ہیں، جو اپنی پرامن جدوجہد کی شمع روشن رکھے ہوئے ہیں۔