وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کے زیر قیادت بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جاری طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5645 دن مکمل ہوگئے، سندھ نواب شاہ سے دلدار بلوچ، سومرخان منگی اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
کیمپ کے سربراہی کرنے والے تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہاکہ ظلم بربریت جبر تشدد جب حد سے تجاوز کرجائے انسان اپنی ہی دھرتی پر پردیسی کہلائے ،آزادی کی رنگین خوابوں کو غلامی کے طوق پہنائے جائیں پھولوں کی تالی کانٹوں سے بھردی جائے بنی نوع انسان فرعونیت پر اُترآئے ،چراغوں کو جب گل کرکےان پر خون کی نہریں بہادی جائے، ظلمت کےگرداب میں جینے کا حق بھی جواب دے آفتاب کی تشریف آوری سے انقلاب کی ایک نوید جاگ اٹھتی ہے معصوم مایوس چہرہ جو کسمپرسی بےبسی کی کشمکش میں مبتلا تھے ان لبوں پر سے مسکراہٹوں کی لہریں بکھرنے لگتی ہیں جدوجہد انتقام کی ہوس اتنی شدت اختیار کرتی ہے کہ متاثرہ انسان خود ایک انقلاب بن جاتاہے ۔
ماما قدیر بلوچ نے کہاکہ اس موسم کی خشک سرد تیز ہوائوں کی روانی اپنی مستی قہرسے ہر اس شے کو اکھاڑ کر پھینک دیتی ہے جو اس کے راستے میں رکاوٹ بن کر آئے ۔سردی کی شدت نے ہر انس بشر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے ہرکوئی اپنے گھر تک محصور ہو کر رہ گیاہے۔ بنا کسی عذر کے کوئی اپنے آشیانہ کو چھونے رضامند نہیں۔
انہوں نے کہا اس خشک سرد موسم کوئٹہ شہر کے پریس کلب کے سامنے وی بی ایم پی کے زیراہتمام بلوچ لاپتہ افراد کا ایک بھوک ہرتالی کیمپ غیرمعینہ مدت تک لگایا جس میں جبری لاپتہ افراد بچے اپنی پیاروں کی تصویریں ہاتھوں میں لیئے ہوئےہیں یہ معصوم بچے جن کے آج کھیلنے کود نے اور موج مستی کے دن ہیں لیکن ان میں سے کچھ باپ کے لاڈ سے محروم تو چند بھائی کی محبت شفقت کے پیار سے ان کی جدائی پر اشک بہاکر انسانی حقوق کے علمبرداروں آزاد عدلیہ کے دعویداروں سے یہ سوال کرتے رہے کہ کہاں گئے وہ عدل انصاف کے قصے ۔مہنگائی بیروزگاری پر پوری ریاست کے قلم بولنے لگتے ہیں لیکن لاپتہ افراد کے مسلے پر آج ہر سمت سے یہ خاموشی منافقانہ رویہ کیوں؟