وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے زیر قیادت جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5643 دن مکمل ہوگئے۔ خضدار سے سیاسی اور سماجی کارکنان اللہ داد مینگل، عبدالحمید جتک، اور دیگر افراد نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی ریاست جبری گمشدگیوں کے ذریعے بلوچ عوام کو نشانہ بنا رہی ہے، جو اقوام متحدہ کے 1992 کے ڈکلیئریشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس ڈکلیئریشن کے مطابق، جنگ یا اندرونی بدامنی کی کسی بھی صورت میں جبری گمشدگیوں کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی ادارے منظم انداز میں بلوچ قوم کے روشن مستقبل اور سماجی قوت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج بلوچ قوم اپنے ہزاروں نوجوانوں کی شہادت اور تشدد زدہ لاشوں کے دکھ میں سوگوار ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ 2000 سے اب تک ہزاروں مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوچکی ہیں، جن میں کئی ایسی ہیں جنہیں ویرانوں میں دفنایا گیا تھا۔ مزید ہزاروں افراد ریاستی عقوبت خانوں میں بند ہیں۔ ان میں سے اکثریت ان افراد کی ہے جنہیں گزشتہ بیس سالوں کے دوران مختلف آپریشنز اور چھاپوں کے دوران جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بسوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں سے بھی نوجوانوں کو اغوا کیا گیا۔ بین الاقوامی اداروں اور خود پاکستانی عدلیہ نے بھی ان افراد کی ریاستی تحویل میں موجودگی کی تصدیق کی ہے، لیکن انہیں اب تک بازیاب نہیں کیا گیا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی کہ وہ اس انسانی بحران کا نوٹس لیں اور جبری گمشدگیوں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔