طلباء جامعہ کی اندر فورسز موجودگی کے خلاف گذشتہ روز سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے مرکزی شہر اور دارالحکومت کوئٹہ میں بولان میڈیکل کالج (بی ایم سی) کی بندش اور ہاسٹلوں پر پولیس اور فورسز اہلکاروں کی قبضے کے خلاف طلباء کا احتجاجی کیمپ دوسرے روز بھی جاری ہے، سخت سرد موسم کے باوجود بڑی تعداد میں طلباء احتجاجی کیمپ میں شریک ہیں۔
بلوچستان کے طلباء تنظیموں کی جانب سے ہاسٹلوں پر قبضے اور عسکری اہلکاروں کی تعلیمی ادارے کے اندر موجودگی کے خلاف گذشتہ روز سے جامعہ کے مرکزی دروازے کے سامنے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
طلباء نے کیمپ کے دوران حکومت سے اپنے تین اہم مطالبات پیش کیے:
1. تمام گرفتار طلباء کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
2. بولان میڈیکل کالج اور ہاسٹلوں کو دوبارہ کھولا جائے۔
3. واقعے میں ملوث پولیس اور کالج انتظامیہ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
احتجاج میں شامل طلباء کا کہنا ہے کہ کالج اور ہاسٹل ان کے تعلیمی حقوق کی ضمانت ہیں، جنہیں طاقت کے ذریعے چھینا جا رہا ہے ہاسٹل اور کلاسز بند کرکے ہمیں نہ صرف تعلیم سے دور کیا جا رہا ہے بلکہ ہمارے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔
طلباء نے پولیس کے حالیہ اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہمارا جرم صرف یہ ہے کہ ہم تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ تعلیمی ماحول کو خراب کرکے بلوچ نوجوانوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
احتجاجی کیمپ میں شریک طلباء نے شدید سردی کے باوجود اپنے احتجاج کو جاری رکھا ہوا ہے۔ مظاہرین نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو احتجاج کا دائرہ وسیع کر دیا جائے گا اور صوبے بھر میں مظاہرے کیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ گذشتہ دنوں بی ایم سی ہاسٹل پر پولیس نے دھاوا بولتے ہوئے متعدد طلباء کو گرفتار کیا تھا، جس کے دوران کئی طلباء زخمی یا بے ہوش ہو گئے تھے۔
اس کارروائی کے خلاف طلباء تنظیموں نے احتجاج شروع کرتے ہوئے حکومت اور انتظامیہ پر شدید تنقید کی ہے۔ طلباء کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدامات بلوچ نوجوانوں کو تعلیمی میدان سے نکالنے کی ایک منظم سازش ہیں۔
طلباء رہنماؤں نے پولیس کی کارروائی کو بلوچ اور پشتون طلباء کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی سازش قرار دیا تھا ان کا کہنا تھا یہ عمل تعلیمی اداروں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش ہے۔ ہم اس سازش کو ناکام بنا کر تعلیمی اداروں میں امن قائم رکھیں گے۔