بچوں کے اغوا کا بڑھتا ہوا مسئلہ عدالت نے واقعات کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔
کوئٹہ میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات نے نہ صرف عوام بلکہ عدلیہ اور حکومتی اداروں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ حالیہ واقعے میں 10 سالہ محمد مصور، جو تیسری جماعت کا طالب علم تھا، 15 نومبر کو اس وقت اغوا ہوا جب وہ ملتانی محلہ سے اسکول جا رہا تھا۔ مسلح ملزمان نے اسکول وین کو روک کر اسے زبردستی اغوا کیا اور ایک کار میں لے گئے۔
مصور کے لواحقین کے مطابق ان کی کسی سے دشمنی یا تنازع نہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اغوا کا مقصد تاوان ہو سکتا ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ تاحال اغوا کاروں کی جانب سے تاوان کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ بچے کی بازیابی کے لیے لواحقین، سیاسی و سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے بلوچستان اسمبلی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے باہر گزشتہ چھ دن سے مسلسل دھرنا جاری ہے۔
عدلیہ کی مداخلت
سپریم کورٹ نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ملک بھر میں لاپتا بچوں کے کیسز پر برہمی کا اظہار کیا۔ دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئٹہ میں چھ دن سے ایک بچہ اغوا ہے، لیکن حکومت بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ عدالت نے تمام صوبوں کے آئی جی اور سیکرٹری داخلہ کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں صرف رپورٹ نہیں بلکہ اغوا کے واقعات کا خاتمہ چاہیے۔ کیس کی آئندہ سماعت 28 نومبر کو ہوگی۔
بچوں کے اغوا کی موجودہ صورتحال
پولیس کے مطابق رواں برس کوئٹہ میں بچوں کے اغوا کے 26 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، جن میں سے پانچ اغوا برائے تاوان کے تھے۔ تاوان کی غرض سے اغوا کیے گئے دو بچے بازیاب کرائے جا چکے ہیں، ایک بچے کی لاش ملی، جبکہ دو بچے تاحال لاپتا ہیں۔ ذاتی رنجش اور دیگر وجوہات کے تحت 21 مقدمات بھی رپورٹ ہوئے، جن میں 28 ملزمان ملوث تھے۔ ان میں سے 16 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جبکہ 13 بچے بازیاب ہوئے ہیں، اور نو بچے اب بھی لاپتا ہیں۔
لواحقین کا احتجاج اور مطالبات
مصور کے چچا حاجی ملنگ کاکڑ نے کہا کہ ان کا خاندان پہلے ہی ایک بچے کے قتل کا صدمہ جھیل چکا ہے، اور اب ایک اور واقعے نے انہیں مزید خوفزدہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے کی بازیابی تک احتجاج جاری رہے گا، چاہے سردی کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو۔ انہوں نے حکومت اور پولیس سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
کوئٹہ کے سرینا چوک پر جاری دھرنا اور اسکول کے طلبہ و اساتذہ کے احتجاج نے شہر میں ٹریفک کا نظام مفلوج کر دیا ہے، لیکن حکومتی ادارے اب تک کوئی مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔