کراچی پولیس نے بی ایل اے مجید کے کراچی ائیرپورٹ حملے میں سہولت کاری کے الزام میں گرفتار ہونے والے خاتون سمیت دو افراد کی شناخت ظاہر کردی۔
محکمہِ انسداد دہشت گردی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ 10 نومبر کی رات انٹیلی جنس آپریشن کے دوران چینی باشندوں پر کیے گئے خودکش حملے کے ’ماسٹر مائنڈ جاوید عرف سمیع عرف سمیر اور خاتون گل نسا کو کراچی سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق ’یہ دونوں حب سے کراچی میں داخل ہوئے تھے۔ گرفتار جاوید کا اس خودکش دھماکے میں براہ راست ملوث ہونا پایا گیا ہے جبکہ گرفتار خاتون نے سہولت کاری کی تھی۔ ان کے تیسرے ساتھی کی تلاش جاری ہے۔
پولیس اور حکومت سندھ نے اب تک اس معاملے میں کی جانے والی تحقیقات کے حوالے سے بتایا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم نے فوری طور پر جدید تقاضوں کے مطابق تفتیش کا آغاز کیا اور چشم دید گواہان کی مدد سے خودکش حملہ آور کے دیگر دو ساتھیوں کے خاکے تیار کروائے۔
بیان کے مطابق ’جائے وقوعہ کا بغور معائنہ کر کے شہادتیں حاصل کی گئیں جن کی روشنی میں تفتیش کو آگے بڑھایا گیا۔‘
بیان میں بتایا گیا کہ ’جائے وقوعہ سے کچھ فاصلہ پر پڑا ہوا خود کش حملہ آور کا کٹا ہوا جسم اور ایک ہاتھ پایا گیا جس کے فنگر پرنٹ سے اس کی شناخت شاہ فہد کے نام سے ہوئی۔
تحقیقاتی ٹیم کے مطابق ’مزید تفتیش کے دوران خودکش بمبار کی گاڑی کا ریکارڈ چیک کیا گیا تو پایا گیا کہ خود کش حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی کراچی کے ایک شو روم سے ستمبر 2024 میں 71 لاکھ روپے کیش پر خریدی گئی تھی۔ اور خود کش حملہ آور کے نام پر ٹرانسفر کی گئی تھی۔ گاڑی کی خریداری کے لیے کیش رقم حب ضلع بلوچستان کے ایک نجی بینک کے ذریعہ کیش ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ حملے اور اس کی منصوبہ بندی کے حوالے سے کی جانے والے تحقیقات سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ’خود کش حملہ آور اسی گاڑی میں سوار ہو کر ایک خاتون کے ہمراہ چار اکتوبر کو کراچی پہنچا تھا اور صدر کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں رہائش اختیار کی تھی۔‘
محکمہِ انسداد دہشت گردی کے بیان کے مطابق ’چھ اکتوبر کو حملہ آور نے ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا اور اپنے دیگر ساتھیوں کو جیل چورنگی کے قریب سے دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی میں سوار کیا اور ایئر پورٹ کا چکر لگا کر میریٹ ہوٹل کے سامنے واقع پارک میں آگئے۔ ’یہاں سے انھوں نے گاڑی میں بیٹھ کر خودکش حملہ آور کی آخری ویڈیو بذریعہ موبائل ریکارڈ کرکے اپنے بی ایل اے کمانڈر کو بھیج دی۔‘
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ’حملہ آور کا ایک ساتھی رات تقریبا ساڑھے نو بجے کراچی ایئر پورٹ میں پیدل داخل ہوا اور جس وقت چینی قافلہ کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکل رہا تھا تو اس نے باہر موجود حملہ آور کو فون پر اطلاع دی۔ ’خود کش حملہ آور کا دوسرا ساتھی پہلے ہی گاڑی سے اتر کر جاچکا تھا اور جب چینی باشندوں کا قافلہ ایئر پورٹ سے نکل کر کچھ فاصلے پر پہنچا تو خود کش حملہ آور نے بارود سے بھری ہوئی گاڑی ان کے قریب لے جا کر دھماکہ کر دیا۔‘
محکمہِ انسداد دہشت گردی کے مطابق گرفتار ہونے والوں نے دوران تفتیش انتہائی اہم انکشافات کیے ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 6 اکتوبر کو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب سگنل پر چینی انجینئرز اور سرمایہ کاروں کے قافلے کے قریب ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چینی شہریوں سمیت کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچستان کی آزادی کے لیے متحرک تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی۔
بی ایل اے کے مطابق مجید برگیڈ کے فدائی شاہ فہد عرف آفتاب نے بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے اس قافلے کو نشانہ بنایا، جس میں پانچ سے زائد چینی انجینئر اور سرمایہ کار ہلاک اور بارہ سے زائد زخمی ہوئے، جبکہ ان کی حفاظت پر مامور کم از کم پندرہ پاکستانی فوجی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے، جن میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے چار سے زائد اعلیٰ سطحی افسران شامل ہیں۔