نوشکی میں ٹارچر سیل قائم کیئے جارہے ہیں ۔ ماما قدیر بلوچ

200

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5626 دن ہوگئے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں سیاسی سماجی کارکنان اعجاز احمد بلوچ، علی احمد بلوچ، سلام بلوچ اور عہباز احمد اور دیگر شامل تھے۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ آبادیوں پر یلغار قابض ریاستوں کا ہمیشہ ہی شیوہ رہا ہے لیکن جب قومی تحریک مختلف تشعب فراز سے گزرتی ہوئی تیزی سے آگے بڑھی تو قابض ریاست حواس باختہ ہو کہ ظلم جبر کی حدوں کو پار کرنے لگی جوتا ہنوز جاری ہیں۔ 2000 سے 2024 نومبر تک اسی 80000 ہزار بلوچ فرزند جبری طور لاپتہ کئے گئے ہیں۔ اگر کسی کو اس تعداد پر اعتراض ہے تو مجھ سے رجوع کرکے روزانہ کی بیناد پر سینکڑوں بلوچ طلباء سیاسی کارکن اور طبقہ کے لوگوں کو جبری لاپتہ کیا جاری ہے۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ نوشکی میں ٹارچر سیلوں کی تعمیر کے لیے بیس ہزار بوری سیمنٹ کا آرڈ ہو چکا ہے ۔ یہ نہیں کہ وہاں بنگلہ بنائینگے نہیں صرف اور صرف 4×6 کا ایک ایک ٹارچر سیل بنایا جائیگا۔

ماما قدیر بلوچ مزید کہا کہ جو لوگ جام آقا میں غلامی کی میٹھی زہر پی کر اپنی خودی گنوا چکے ہیں وہ سر زمین کی پکار سنا نہیں کرتے فرعون وقت کے زندانوں میں مقید فرزندان وطن کی لہو رستے زخموں کا احساس نہیں کر سکتے چھلنی چھلنی لاشیں وصول کرنے والی ماں کی فلک شگاف چین میں اُن کی آرام میں خلل نہیں ڈالتے ڈرل مشینیں سینے پر چلتی ہے اور انقلاب تحریک کے لیے تڑپتے دل کے آریار ہوتی ہے تو دنیا کی تکلیف دہ درد اُٹھتی ہے ۔ کانوں اور ناک منہ میں پگھلائی سیہ انڈیلی جاتی ہے۔ تو اس کے مقابلے میں موت ایک کھیل معلوم ہوتی ہے اس درد اور آتش کی حدت کا اندازه غلامی غلامی در غلامی پر مصر بے روح عصری چند دیا جو حکمرانوں کے مریدوں کے لیے ناممکن ہے جو لوگ نس نس رگ رگ میں سطی مراعات اور وقتی مفادات قطرہ قطر خون کی روانی میں شامل کرچکے ہیں ، سانسوں کی مالائیں پاکستانی رشتے کی غلیط ڈوری میں پروچکے ہیں اُن کے لئے غلامی کے تیرو تاریکی میں تحریک کی ٹمٹاتی چراغ کی حیرت کی تو کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اُن کے لیے رات کے سنائے میں پہاڑی جھرنے گی مدھر مدھر موسیقی محض ایک شور ہے۔