نصیب اللہ بادینی کے جبری گمشدگی کے 10 سال، کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ

40

نوشکی کے رہائشی نصیب اللہ بادینی کی جبری گمشدگی کو دس سال مکمل ہونے پر آج کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ان کے لواحقین، بلوچ سیاسی کارکنان اور طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

مظاہرین نے نصیب اللہ کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے انصاف کی فراہمی پر زور دیا۔

مظاہرے میں نصیب اللہ بادینی، راشد لانگو اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین بھی شامل تھے، جنہوں نے اپنے ہاتھوں لاپتہ پیاروں کی تصاویر اُٹھا رکھی تھیں اور ان کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اس موقع پر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے نصیب اللہ بادینی کے لواحقین کے مطابق، نصیب اللہ کو 25 نومبر 2014 کو چاغی اسٹاپ، نوشکی سے پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے سرعام حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔ اس وقت وہ بارہویں جماعت کے طالب علم تھے اور اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔

ان کی ہمشیرہ ماہ پارہ بلوچ نے کہا کہ نصیب اللہ محض بلوچ ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں اور زندانوں میں قید ہیں۔

ماہ پارہ بلوچ نے کہا کہ نصیب اللہ کی گمشدگی کے خلاف تمام قانونی راستے اپنائے گئے ہیں، لیکن عدلیہ اور ادارے بے بس نظر آ رہے ہیں اگر نصیب اللہ پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، لیکن دس سال گزرنے کے باوجود ہمیں کوئی انصاف نہیں ملا۔

مقررین کا کہنا تھا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، جس نے ہزاروں خاندانوں کو متاثر کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق بلوچستان میں 40 ہزار سے زائد افراد جبری گمشدگی کا شکار ہو چکے ہیں جن میں صحافی، طلبہ اور سیاسی رہنما شامل ہیں۔

انہوں نے کہا انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مظاہرین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر جبری گمشدگیوں کا مسئلہ حل کرائے۔

مزید برآں، آج کے مظاہرے کے ساتھ، رات 8 بجے سے 12 بجے تک نصیب اللہ بادینی کی گمشدگی کے خلاف ایک سوشل میڈیا مہم ایکس (پہلے ٹوئٹر) پر چلائی جائے گی۔