ہمارے بہترین لوگوں کی قربانیاں ہماری بقا اور زندگی کا باعث ہیں ۔ تحریک کے لیے قربانیاں دینے والے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔جس طرح کہا جاتا ہے کہ اگر سقراط زہر نہیں پیتا تو مرجاتا اسی طرح شہداء نے بھی ناگزیر قربانی کے ذریعے تاریخ میں خود کو امر کردیا ۔
ان خیالات کا اظہار مقررین نے لندن میں بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کی طرف سے منعقدہ یوم بلوچ شہداء کی تقریب میں کیا۔ تقریب میں مورخ ڈاکٹر نصیر دشتی ، ورلڈ سندھی کانگریس کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر لکھو لوہانہ، بی این ایم کے جونیئر جوائنٹ سیکریٹری حسن دوست بلوچ ، بی این ایم کے فارن ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی کوارڈینیٹر اور سی سی ممبر نیاز بلوچ ، بی این ایم یوکے صدر منظور بلوچ، بلوچ ری پبلیکن پارٹی ( بی آر پی ) یوکے کے صدر منصور بلوچ، بلوچ راجی زْرمبش ( بی آر زیڈ ) کے رہنماء عبداللہ سیاھو ،بی ایچ آر سی کے جنرل سیکریٹری کمبر مالک بلوچ، بی این ایم یوکے جنرل سیکریٹری کمبر بخشی بلوچ ، ڈپٹی جنرل سیکریٹری بی این ایم یوکے جمیل بلوچ اور بی این ایم کی دوزواہ ( حامی ) ماہ گنج بلوچ اور دیگر نے خطاب کیا۔
بی این ایم یوکے کے نائب صدر نسیم عباس اور جاسم میار پروگرام کے آرگنائزر تھے۔
اس موقع پر شعراء نے بھی اپنا کلام پیش کیا اور شہداء کو خراج تحسین پیش کی۔مسلم دیدگ ، عبدالرسول بلوچ ، ہاتف بلوچ اور حفیظ عبداللہ نے اپنی شاعری کے ذریعے بلوچ شہداء کو یاد کیا۔
پروگرام کے دوران ’ لال شہید محراب خان ‘ کے حوالے سے ڈاکومنٹری فلم دکھائی گئی اور شرکاء نے بلوچ شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شہداء کی تصاویر پر گل پاشی کی۔
مقررین نے کہا بلوچ شہداء کی تاریخ لال شہید مھراب خان کی شہادت 13 نومبر 1839 سے پہلے شروع ہوتی ہے۔تاریخ میں بلوچ کی بدترین نسل کشی انوشیروان ساسانی نے کیا اور اس کے بعد بھی کئی حکمرانوں نے بلوچوں کا قتل عام کیا۔ لیکن علامتی طور پر 13 نومبر ایک اہم دن ہے جس میں ہم تمام شہداء کو یاد کرتے ہیں۔ اگر وہ قربانیاں نہ دیتے تو بحیثیت قوم ہمارا زندہ رہنا ممکن نہیں رہتا۔ان کی قربانیاں نہ صرف ہمیں امید دیتی ہیں بلکہ بدترین چیز جو کسی قوم کے ساتھ ہو تی ہے، وہ غلامی کا شکار ہو جاتی ہے ، اس کا ہمیں احساس دلاتی ہیں۔امید دلاتی ہیں کہ ہاں وہ دن آئے گا جب غلامی کے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔
انھوں نے کہا ہمارے شہداء کی قربانیوں کے نتیجے میں پاکستانی ریاست، ایٹمی ریاست، کانپ رہی ہے، لرز رہی ہے۔ اور یقین رکھیں وہ دن جلد آئے گا کہ یہ ریاست ڈہ جائے گی ، اس کا خاتمہ یقینی ہے۔
مقررین نے کہا ہماری مقبوضہ سرزمین پر آزادی کی صبح طلوع ہوگی اور صبح کا سرخ رنگ ہمارے شہیدوں کے خون کے علاوہ کہیں سے نہیں آئے گا۔ جس کے لیے انھوں نے اپنی جانیں دیں۔
انھوں نے کہا یہ قربانیاں ہمارے کندھوں پر ذمہ داریاں ڈالتی ہیں ، ان کے نیچے، ہزاروں بہترین بیٹوں اور بیٹیوں کی ذمہ داری ہے جنھوں نے اپنی جانیں دیں۔ ان کا خون رائیگاں نہ جائے۔ اور آج کے اس دن ہم عہد کرتے ہیں کہ آزادی، خوشحالی اور بقاء کے لیے ہمیں جتنی بھی قربانیاں دینی پڑیں، جدوجہد جاری رکھیں گے۔