بلوچستان کے ضلع مشکے میں فوجی کارروائیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ بی وائی سی
بلوچستان کے علاقے مشکے سے اطلاعات کے مطابق پاکستانی فورسز کی جانب سے خواتین اور بچوں سمیت علاقہ مکینوں کو زبردستی فوجی کیمپوں میں طلب کیا جا رہا ہے، جہاں انہیں جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے مشکے میں پاکستانی فورسز علاقے کے مردوں کو جبری طور پر حراست میں لے رہی ہیں، انہیں تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں اور بلوچ آزادی پسندوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
گذشتہ چند واقعات ان خاندانوں کے ساتھ پیش آئے ہیں جن کے پیارے 26 اپریل 2024 کو جبری گمشدگی کا شکار ہوئے تھے، جن میں سجاد اعظم، ولی جان اور حاصل خان، نامی افراد شامل ہیں جن کے لواحقین نے ان واقعات کے خلاف مئی میں تین روزہ احتجاج دھرنا دیا تھا۔
خواتین کے مطابق انکے پیاروں کو علاقے میں موجود پاکستانی فورسز نے کیمپ بلانے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کردیا تھا، اور ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
مشکے کی خواتین، جن میں سے اکثر زیر حراست یا لاپتہ افراد کے اہلخانہ ہیں، بلوچ تنظیموں بالخصوص بلوچ یکجہتی کمیٹی سے اپنی حالت زار کا ازالہ کرنے اور ان کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
علاقہ مکینوں کے مطابق یہ صورتحال کئی عرصے سے جاری ہے، جہاں مردوں کو باقاعدگی سے پاکستانی فوجی کیمپوں میں لے جایا جاتا ہے، جہاں وہ تشدد اور جبری مشقت برداشت کرتے ہیں اب خواتین کے ساتھ بھی یہی عمل اپنایا جارہا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور فوجی محاصرے ایک معمول بن چکے ہیں، جن میں خواتین کی تذلیل اور مردوں کو جبری مشقت پر لگایا جا رہا ہے۔
تنظیم نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ مظالم بلوچ نسل کشی کی ایک اور علامت ہیں، جن کا مقصد بلوچ عوام کو دبا کر ان کے حقوق چھیننا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق ان فوجی کارروائیوں کی موجودہ صورتحال، خصوصاً خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایکشن لینا چاہیے تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ روکا جا سکے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ان اقدامات کی سخت مذمت کی ہے اور متاثرہ خاندانوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔