ماورائے قانون بلوچ قتل عام – ٹی بی پی اداریہ

154

ماورائے قانون بلوچ قتل عام

ٹی بی پی اداریہ

ایک سال پہلے تئیس نومبر کی رات ودود بلوچ، بالاچ بلوچ، سیف بلوچ اور شکور بلوچ، جو پنجگور ؤ کیچ کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدہ کئے گئے تھے اور پولیس ؤ فوج کے زیر حراست تھے، انہیں پسنی کے پہاڑوں میں بلوچستان پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے ماروائے عدالت قتل کرکے مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا۔ ماورائے عدالت قتل کئے گئے بالاچ بلوچ عدالتی ریمانڈ پر پہلے ہی پولیس کے تحویل میں تھے اور عدالت میں ان کا مقدمہ چل رہا تھا۔

بلوچستان میں تحریک آزادی کی انسداد کے لئے پاکستانی فوج کی یہ پالیسی رہی ہے کہ آزادی کے لئے برسرپیکار مسلح تنظیموں کے حملوں میں فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد پہلے سے جبری گمشدہ کئے گئے افراد کا جعلی فوجی ؤ پولیس مقابلوں میں مارے جانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، اکثر ایسے جعلی مقابلوں میں اُن افراد کو مار دیا جاتا ہے جن کے کیسز پاکستان کے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور انسانی حقوق کی اداروں کے پاس اُن کی جبری گمشدہ ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔

پاکستان کے ان پالیسیوں کا مقصد جبر کے زریعے بلوچ قومی تحریک کا انسداد کرنا ہے لیکن بالاچ بلوچ کی ماروائے عدالت قتل نے ریاستی جبر کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک کو جنم دیا، اس سیاسی تحریک نے جبری گمشدگیوں اور ماروائے عدالت قتل کے خلاف تربت سے اسلام آباد تک مارچ کیا اور دنیا بھر کے بلوچوں کو مزاحمتی سیاست میں متحرک کرکے کوئٹہ اور گوادر میں راجی مچی کی صورت مزاحمت کو اجتماعی و قومی شکل دی۔

بالاچ بلوچ کی ماورائے عدالت قتل کے ایک سال بعد تربت فدا شہید چوک پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پلیٹ فارم پر ہزاروں افراد کا اُن کے یاد میں جمع ہوکر ریاستی نسل کش پالیسیوں کے خلاف بلوچوں کو منظم و متحد کرنے کی کوششوں سے عیاں ہے کہ بلوچستان میں ریاستی جبر کے زریعے بلوچ قومی تحریک کو ختم کرنے کی پالیسیاں کامیاب نہیں ہونگی اور ریاستی جبر کے خاتمے تک سیاسی مزاحمت جاری رہے گی۔