فطرت کی گود میں محبت کا سفر ۔ حانُل بلوچ

68

‏‎فطرت کی گود میں محبت کا سفر
‏‎تحریر: حانُل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

‏‎درہ بولان، بلوچستان کے دل میں واقع ایک حسین وادی ہے جو کوئٹہ سے تقریباً 160 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس وادی کو نہ صرف قدرت نے دلکش مناظر عطا کیے ہیں بلکہ یہ اپنی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کی وجہ سے بھی مشہور ہے، بولان کی پہاڑیاں اپنے منفرد خوبصورتی اور سکون بخش ماحول کے باعث ہر دیکھنے والے کو اپنا دیوانہ بنا دیتی ہیں، یہی وہ جگہ ہے جہاں مہر اپنی گہرائیوں کا احساس دلاتا ہے اور گُلزمین کی محبت دل میں پنا ہو جاتی ہے،۔

‏‎میرا سنگت، مہردل، ایک وطن دوست اور پہاڑوں سے محبت کرنے والا شخص ہے، جس کا گاؤں مچھ کے قریب درہ بولان کی خوبصورت وادیوں میں واقع ہے، کئی بار میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے اپنے گاؤں لے چلو، لیکن وہ ہمیشہ انکار کر دیتا، نہیں سنگت، وہاں جانا ممکن نہیں! مگر میرے اصرار اور دل کی گہرائی سے نکلی خواہش کے سامنے آخر کار وہ ہار گیا، ایک دن اس نے ہامی بھری اور ہم درہ بولان کے سفر پر روانہ ہو گئے۔

‏‎راستے میں دشت کی ٹھنڈی ہوا جب کانوں کو چھوتی تو دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑتی، جیسے جیسے گاڑی آگے بڑھتی، درہ بولان کے مناظر اور زیادہ خوبصورت ہوتے جا رہے تھے، ہر موڑ پر پہاڑوں کا خوبصورتی ان کی گہرائیاں، اور ان کی چٹانوں کا سکوت میرے دل کو جکڑ لیتا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے درہ بولان کے پہاڑوں کا لمس میری روح کو آزادی اور سکون دے رہا ہو۔

‏‎جب ہم مہردل کے گاؤں میں پہنچے تو کچھ نوآبادیاتی لوگوں نے ہمیں روک لیا وہی سوال جو ہمیشہ ہر ایک دیسی باشندوں سے ہوتے جا رہے ہیں، کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟” میرے اندر غصہ سا اوبرا لیکن مہردل نے بڑی نرمی سے بات سنبھالی، بالآخر ہمیں راستہ دیا گیا، اور ہم اپنی منزل کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ مگر راستے میں مجھے ایک گہرا احساس ہوا کہ ہم کب تک اس نوآبادیاتی نظام کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے، جہاں ایک دیسی باشندے کو اپنے ہی وطن میں اجنبیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

‏‎یہ کیسا نظام ہے، جہاں کوئی مقامی شخص اپنے ہی گاؤں کی سرزمین پر چلتے ہوئے جواب دہ ٹھہرایا جاتا ہے؟ ایسی صورت حال دل کو دکھ دیتی ہے اور روح میں ایک سوال چھوڑ جاتی ہے۔

‏‎آگے کا سفر پیدل ہے! مہردل نے کہا، ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور پہاڑوں کے بیچ پگڈنڈی پر پیدل سفر شروع کیا، واہ سنگت، مہردل سلامت رہو! میں نے دل سے دعا دی، کیونکہ وہ صرف ایک سنگت نہیں تھا بلکہ گُلزمین کا عاشق بھی تھا۔

‏‎ درہ بولان کی وادیوں میں ہر چٹان، ہر درخت، اور ہر پہاڑ اپنی الگ کہانی سناتے ہیں، درہ بولان کی خوبصورتی دل کو ایک ایسا سکون بخشتی ہے، جو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔

‏‎پیدل چلتے چلتے ہم (نام پیرا) نامی مقام پر پہنچے، جہاں مہردل نے ہمارے ٹھہرنے کا انتظام کیا، رات کے وقت درہ بولان کا ماحول اور زیادہ دلکش ہو جاتا ہے، آسمان پر ستارے چمک رہے تھے، اور پہاڑوں کے درمیان ایک عجیب سا سما تھا،، مہردل ان پہاڑوں اور زمین کے ساتھ اس طرح جُڑا ہوا تھا جیسے یہ صرف پتھر اور مٹی نہ ہوں بلکہ اس کی روح کا ایک حصہ ہوں، اس کے وجود کی گہرائیوں میں بسے ہوئے ہوں۔

‏‎ایک چھوٹی سی تتلی بار بار میرے پاس آتی اور اڑ جاتی، کبھی مہردل کے قریب جا بیٹھتی، میں نے مہردل کے چہرے پر وہ محبت دیکھی جو زمین کے ہر ذرے سے جُڑی ہوئی تھی۔جیسے جیسے رات گہری ہو رہی تھی، خاموشی گہری ہوتی جا رہی تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت تم سا گیا، اور درہ بولان نے سب کو اپنی آغوش میں لے لیا ہو۔

‏‎مہردل کی شخصیت نے مجھے بہت متاثر کیا، وہ ایک ایسا شخص تھا جو نہ صرف اپنے دوستوں سے محبت کرتا تھا بلکہ اپنی زمین اور اپنی قوم سے بھی بے پناہ عشق رکھتا تھا، اس کی باتوں اور زمین کے ساتھ اس کے تعلق نے میرے دل میں درہ بولان کی خوبصورتی کو مزید گہرا کر دیا،۔

‏‎درہ بولان کی حسین وادیوں کے ساتھ میرا ایک سنگت مہردل بھی جُڑا ہوا ہے ، وہ نہ صرف ایک وفادار دوست تھا بلکہ ایک ایسا شخص تھا جس کی زندگی زمین، فطرت اور اپنی قوم کے عشق سے عبارت رکھتی تھی۔ مہردل کا گاؤں مچھ کے قریب، درہ بولان کی خوبصورت وادیوں میں واقع تھا، وہ اپنی زمین کے ذرے ذرے سے محبت کرتا تھا اور پہاڑوں کو صرف پتھر نہیں بلکہ اپنی زندگی کا حصہ سمجھتا تھا،۔

‏‎مہردل کے دل میں اپنی سرزمین کے لیے وہ محبت تھی جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔ وہ اکثر کہتا تھا، “سنگت، یہ پہاڑ ہماری تاریخ کے گواہ ہیں، یہ درخت ہمارے خوابوں کے نگہبان ہیں، اور یہ زمین ہماری ماں ہے۔ ہم اپنی ماں سے جدا کیسے ہو سکتے ہیں، یہی وہ الفاظ تھے جو اس کی شخصیت کو زمین سے جڑے ہر انسان کے لیے ایک مثال بناتے تھے،۔

‏‎اس کے ساتھ میرا درہ بولان کا سفر ہمیشہ یادگار رہے گا۔ وہ راستے میں پہاڑوں کو دیکھ کر مسکراتا اور خاموشی سے ان کے ساتھ ہم کملام ہوتا جسے کوہی آپنے محبوب سے ہم کلام ہو۔ اس کی باتوں میں زمین کے لیے ایک گہرا عشق اور فطرت کے لیے احترام جھلکتا تھا، جب ہم نام پیراپہنچے اور پہاڑوں کے درمیان رات بسر کی، میں نے اس کے چہرے پر سکون اور محبت دیکھی، وہ پہاڑوں کے قریب بیٹھ کر اکثر کہتا تھا،یہ پہاڑ ہمارے محافظ ہیں، ان کے بیچ رہ کر سکون ملتا ہے،۔

‏‎مہردل اب ہم میں نہیں رہا۔ وہ اپنی زمین کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ اس کی شہادت میرے لیے ایک گہرا صدمہ ہے، لیکن اس کے جانے کے بعد بھی اس کی یادیں ہمیشہ میرےساتھ جُڑا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں