علماء اور حکمرانوں کا تعلق — تاریخ کا ایک تنقیدی جائزہ
تحریر: مولانا اسماعیل حسنی
دی بلوچستان پوسٹ
مسلمان معاشروں میں علماء ہمیشہ سے دین کے علمبردار اور رہنما سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ان کا کردار نہ صرف دینی معاملات تک محدود رہا بلکہ سیاسی اور معاشرتی امور میں بھی ان کی حیثیت انتہائی اہم رہی۔ تاہم، تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر دور میں کچھ علماء نے اپنی حیثیت اور اثر و رسوخ کو دینی مقاصد کے بجائے حکمرانوں کی خوشنودی اور ذاتی مفادات کےلیے استعمال کیا۔ ان علماء کو عموماً ”درباری علماء“ کہا جاتا ہے۔ یہ علماء حکمرانوں کے دربار سے وابستہ ہو کر ان کے مفادات کی تکمیل میں معاون ثابت ہوئے اور بدلے میں مختلف مراعات حاصل کیں۔
درباری علماء کی یہ روایت نہ صرف مسلم خلافت کے دوران بلکہ انگریزی استعمار کے دور میں بھی جاری و ساری رہی، دربار نشینی اور حکمرانوں کے معاملے میں رطب اللسان ہونے کا یہ سلسلہ تاحال برقرار ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گی۔ ہم دیکھتے ہیں ہر دور میں مختلف مسالک کے علماء، خواہ وہ اہل سنت، اہل تشیع یا اہل حدیث سے تعلق رکھتے ہوں، بعض اوقات حکمرانوں کے لیے مذہبی جواز فراہم کرتے نظر آتے ہیں۔ انگریز دور میں بھی یہ رویہ عام رہا، جہاں علماء نے اپنے خطبات، فتاویٰ اور خدمات کے ذریعے انگریزی حکومت کی حمایت کی، اور بدلے میں مالی، سیاسی اور سماجی فوائد حاصل کیے۔
اہل سنت علماء:
اہل سنت علماء میں سے کئی نے حکمرانوں کے دربار میں نمایاں حیثیت حاصل کی۔ ان میں بعض علماء نے حکمرانوں کے ظلم و جبر کو مذہبی جواز فراہم کیا اور عوام میں ان کے فیصلوں کو قبولیت دلانے کےلیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا اور الہی تعلیمات میں تاویل کرکے معمولی مراعات کےلیے دین کو بیچا، ظالم و مظلوم کی دو بدو لڑائی میں نہ صرف ظالم کے صف میں کھڑے رہے بلکہ اس ظلم کو مذہبی جواز بھی فراہم کرتے رہے۔ انگریز دور میں اہل سنت علماء میں سے بعض نے انگریزی حکومت کی وفاداری کا حلف اٹھایا اور مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف کسی بھی مزاحمت سے باز رہنے کی تلقین کی۔ اس کے بدلے میں انہیں مختلف سرکاری مناصب، جاگیریں اور خطابات عطا کیے گئے۔
اہل تشیع علماء:
اہل تشیع علماء نے بھی کئی مواقع پر حکمرانوں کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔ خاص طور پر مغل اور انگریزی دور میں اہل تشیع علماء کو دربار میں خصوصی اہمیت دی گئی۔ ان علماء نے نہ صرف حکمرانوں کی حمایت کی بلکہ انہیں مذہبی جواز فراہم کرنے کےلیے فتاویٰ اور خطبات بھی دیے۔ ان خدمات کے بدلے میں انگریز حکمرانوں نے انہیں مالی فوائد، جاگیریں اور دیگر مراعات سے نوازا۔
اہل حدیث علماء:
اہل حدیث علماء، جو خود کو اصلاح پسند اور حریت کے علمبردار کے طور پر پیش کرتے ہیں، ان میں سے بھی بعض علماء نے انگریز حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔ انگریزوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی بنیاد مذہبی آزادی اور دینی معاملات میں مداخلت سے بچاؤ پر تھی۔ تاہم، کچھ اہل حدیث علماء نے انگریز حکمرانوں کی حکمرانی کو شریعت کے مطابق جائز قرار دینے کے لیے فتاویٰ جاری کیے اور بدلے میں مختلف مراعات حاصل کیں۔
فرعون کے درباری مولوی:
قرآن میں ذکر کیا گیا ہے کہ فرعون کے دربار کے ساحر، جو درباری مولوی اور اپنے وقت کے مذہبی. پیشوا کا کردار ادا کر رہے تھے، ابتدا میں فرعون کی حمایت کرتے رہے لیکن حضرت موسیٰؑ کے معجزے کے بعد ایمان لے آئے۔
(بحوالہ: قرآن مجید، سورہ الاعراف، آیت 123- 126)
عباسی خلافت میں فتوی برائے قتل امام حسینؓ:
یزید کے دربار کے کچھ علماء نے امام حسینؓ کے خلاف فتوے دیے اور کربلا کے واقعے پر خاموشی اختیار کی، جبکہ ان کے فیصلوں کو شرعی جواز فراہم کیا۔ یہ علماء حکمران کے زیرِ اثر حق بات کہنے سے باز رہے۔
(بحوالہ: البدایہ والنہایہ از ابن کثیر، جلد 8، صفحہ 202- الکامل فی التاریخ لابن اثیر، جلد 3، صفحہ 420)
امام اعظم ابوحنیفہؒ کے مقابل درباری علماء:
عباسی خلیفہ منصور نے امام ابو حنیفہؒ کو دربار میں شامل ہونے کی دعوت دی، لیکن امام نے انکار کر دیا۔ منصور نے انہیں قید کر دیا اور درباری علماء نے ان کے انکار کو حکومت کے خلاف بغاوت قرار دیا۔
(بحوالہ: سیر اعلام النبلاء از امام ذہبی، جلد 6، صفحہ 403)
ہارون الرشید کے حامی اور امام مالکؒ کے مخالف درباری مولوی:
خلیفہ ہارون الرشید کے دربار کے علماء نے امام مالکؒ کے مشہور فتوے کو مسترد کر دیا اور خلیفہ کے حکم پر ان کی مخالفت کی۔ امام مالکؒ نے حق بات کہنے کی قیمت قید اور کوڑوں کی صورت میں چکائی۔
(بحوالہ: سیر اعلام النبلاء از امام ذہبی، جلد 8، صفحہ 72)
حجاج بن یوسف کے درباری علماء:
حجاج بن یوسف کے دور میں دربار کے علماء نے ظلم اور جبر کے باوجود خاموشی اختیار کی اور کچھ نے حجاج کے اقدامات کو اسلامی قرار دیا، جس سے مظلوم عوام کے حق میں آواز نہ اٹھائی جا سکی۔
(بحوالہ: البدایہ والنہایہ از ابن کثیر، جلد 9، صفحہ 138)
عباسی دربار میں امام شافعیؒ کے مخالف درباری مولوی:
عباسی خلیفہ کے دربار میں امام شافعیؒ پر جھوٹے الزامات لگائے گئے، اور دربار کے علماء نے ان کے خلاف گواہی دی۔ امام شافعیؒ نے اپنی بے گناہی ثابت کی لیکن سخت مشکلات کا سامنا کیا۔
(بحوالہ: طبقات الشافعیہ از ابن سبکی، جلد 1، صفحہ 125)
امام احمد بن حنبل کے مقابلے میں درباری علماء:
عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دور میں “خلقِ قرآن” کا مسئلہ ایک سرکاری نظریہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ درباری علماء نے خلیفہ کے حکم پر اس نظریے کو شرعی قرار دیا اور تمام علماء کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ امام احمد بن حنبل نے اس نظریے کی مخالفت کی اور سخت اذیتیں برداشت کیں، جبکہ درباری علماء خلیفہ کے ساتھ کھڑے رہے۔
(بحوالہ: البدایہ والنہایہ از ابن کثیر، جلد 10، صفحہ 198)
امام ابو یوسفؒ اور ہارون الرشید:
امام ابو یوسفؒ نے خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں قاضی القضاۃ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اکثر درباری علماء کے برعکس انصاف کا علم بلند رکھا لیکن کچھ مواقع پر حکومتی دباؤ کے تحت فیصلے بھی کیے۔
(حوالہ: کتاب الخراج از امام ابو یوسف، صفحہ 112)
ابن رشد کے محاکمہ میں درباری مولوی:
اندلس کے مشہور فلسفی عالم علامہ ابن رشد کو درباری علماء کے فتوے کی بنیاد پر مرتد قرار دیا گیا اور ان کی کتب کو جلا دیا گیا۔ یہ سب خلیفہ منصور کے حکم پر ہوا۔
(بحوالہ: تاریخِ فلسفہ اسلام از دی بور، صفحہ 167)
علامہ ابن تیمیہ کے مقابلے میں درباری علماء:
ابن تیمیہ نے درباری علماء کی طرف سے جاری کیے گئے فتووں اور حکومت کی غیر شرعی پالیسیوں پر تنقید کی۔ نتیجتاً، دربار کے علماء نے ان کے خلاف فتوے دیے اور ان پر “بدعتی” اور “گمراہ” ہونے کے الزامات لگائے، جس کی بنا پر انہیں قید کر دیا گیا۔
(بحوالہ: مجموع الفتاویٰ از ابن تیمیہ، جلد 3، صفحہ 275)
امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مقابلے میں درباری علماء:
شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی کتابوں اور مکتوبات میں مغلیہ دربار کے علماء کی سازشوں اور منافقت کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے خاص طور پر ایسے علماء پر تنقید کی جو حکومتی طاقت کو شریعت کا لبادہ پہناتے تھے۔
(بحوالہ: مکتوباتِ شاہ ولی اللہ، مکتوب نمبر 56)
ایران کے حاکم فتح علی شاہ قاجار کے درباری علماء:
ایران میں فتح علی شاہ قاجار نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے کچھ درباری علماء کو استعمال کیا، جنہوں نے عوام کو بادشاہ کے حق میں رہنے کی ترغیب دی۔ تاہم، بعض علماء نے ان کے غیر اسلامی رویوں پر اعتراض کیا اور علیحدگی اختیار کی۔
(بحوالہ: تاریخ قاجاریہ از عباس اقبال، صفحہ 102)
علاء الدین خلجی کے درباری علماء:
علاء الدین خلجی کے دربار میں علماء سے کہا گیا کہ وہ بادشاہ کے ہر حکم کو شرعی حیثیت دیں۔ خاص طور پر جب انہوں نے ٹیکسوں اور زمین کی تقسیم کے نئے قوانین بنائے، تو درباری علماء نے ان کی حمایت کی۔
(بحوالہ: تاریخِ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی، صفحہ 189)
سعودی عرب میں درباری علماء کا مستقل سسٹم:
آل سعود کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار علماء نے حکومتی اقدامات کو اسلامی قرار دینے میں کردار ادا کیا۔
(بحوالہ: دعوة الشیخ محمد بن عبد الوہاب از عبدالرحمن بن قاسم، جلد 1، صفحہ 102)
برصغیر کے درباری علماء اور انگریز:
1857 کے بعد انگریز حکومت نے کئی علماء کو مراعات دے کر اپنے حق میں فتوے دلوانے کی کوشش کی۔ ایسے علماء نے انگریز حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے مسلمانوں کو “غدار” قرار دیا۔
(حوالہ: تحریکِ آزادی 1857 اور علماء از عبدالحی الحسنی، صفحہ 212)
جمال الدین افغانی کے مقابل درباری علماء:
شیخ جمال الدین افغانی نے اپنے دور کے علماء کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ دربار کے علماء نے انہیں “فتنہ پرور” قرار دیا اور عثمانی خلیفہ کے حکم پر انہیں جلاوطن کر دیا۔
(بحوالہ: افکارِ جمال الدین افغانی از شبلی نعمانی، صفحہ 189)
خوارزم شاہ کے درباری مولوی:
خوارزم شاہ کے دربار کے علماء نے بادشاہ کے ہر عمل کو درست قرار دیا، حتیٰ کہ منگولوں کے خلاف غلط حکمت عملیوں کو بھی شرعی حیثیت دی۔ اس کا نتیجہ اسلامی سلطنت کے زوال کی صورت میں نکلا۔
(بحوالہ: تاریخِ خوارزم از علاؤ الدین عطاملک جوینی، جلد 2، صفحہ 223)
مغل بادشاہ جہانگیر کے درباری مولوی:
جہانگیر کے دور میں علماء کو دربار میں شامل کیا گیا، جنہوں نے بادشاہ کے شراب نوشی اور غیر شرعی اعمال کو جواز فراہم کیا۔ تاہم، صوفی بزرگ شیخ احمد سرہندی نے اس پر سخت تنقید کی اور بادشاہ کے سامنے حق بات کہی۔
(بحوالہ: مکتوباتِ امام ربانی، دفتر اول، مکتوب نمبر 193)
شاہ عباس صفوی کے درباری مولوی:
شاہ عباس صفوی نے درباری علماء کے ذریعے اپنے مخالفین کے خلاف فتوے حاصل کیے اور عوام میں اپنی حکومت کے لیے مذہبی جواز پیدا کیا۔
(بحوالہ: تاریخِ صفویہ از راجر سیورڈ، صفحہ 275)
تاتاری یلغار اور درباری علماء کا کردار:
جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا تو عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے دربار کے علماء سیاسی معاملات سے لاتعلق رہے اور تاتاری خطرے کو کم اہمیت دی، نتیجہ کیا نکلا؟ دنیا نے یہ دیکھ ہی لیا۔ اس واقعہ کا مطلب یہ ہے کہ درباری علماء ہمیشہ طاقت کا پوجا کرتے ہیں جیسے کہ ہمارے طاہر اشرفی جیسے لوگ۔
(بحوالہ: الکامل فی التاریخ لابن اثیر، جلد 9، صفحہ 426)
فرانس میں نپولین بوناپارٹ اور درباری علماء:
نپولین بوناپارٹ نے مصر میں علماء کو اپنے اقتدار کےلیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ درباری علماء نے عوام کو قابو میں رکھنے کےلیے ان کے ساتھ تعاون کیا، لیکن کئی علماء نے ان کی حکمرانی کو غیر شرعی قرار دیا اور قتل کر دیے گئے۔
(بحوالہ: تاریخِ مصر از عبدالرحمن الجبرتی، جلد 1، صفحہ 89)
تیمور لنگ کے درباری علماء:
تیمور لنگ نے اپنی فتوحات کو مذہبی جواز دینے کے لیے دربار کے علماء کا سہارا لیا۔ درباری علماء نے تیمور کی خونریزی اور حملوں کو شرعی قرار دیا۔
(بحوالہ: تزکِ تیموری از تیمور، صفحہ 345)
ظہیر الدین بابر کے درباری علماء:
بابر کے دربار میں علماء نے ان کے شراب نوشی اور غیر اسلامی رویے پر خاموشی اختیار کی، اور بادشاہ کے ہر عمل کو جائز قرار دیا۔
(بحوالہ: بابر نامہ از ظہیر الدین بابر، صفحہ 212)
سقوطِ غرناطہ میں درباری علماء کا کردار:
اندلس کے زوال کے وقت، کئی درباری علماء نے عیسائیوں کے ساتھ معاہدوں اور مسلمانوں کے حقوق کے خلاف خاموشی اختیار کی، جس سے اسلامی حکومت کے زوال میں مدد ملی۔
(بحوالہ: اندلس کی تاریخ از اسٹینلے لین پول، صفحہ 320)
نورالدین زنگی کے درباری علماء:
نورالدین زنگی نے درباری علماء سے فتوے حاصل کیے کہ وہ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کی حمایت کریں۔ تاہم، کچھ علماء نے سیاسی دباؤ میں ان کے بعض اقدامات پر خاموشی اختیار کی۔
(بحوالہ: تاریخِ زنگیوں از ابن اثیر، جلد 2، صفحہ 145)
سلطان بایزید یلدرم کے دربار نشین مولوی:
سلطان بایزید دوم نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف فتوے لینے کے لیے علماء کو استعمال کیا۔ کئی درباری علماء نے حکمران کے حق میں فتوے دیے تاکہ عوام کو حکومت کے ساتھ رکھا جا سکے۔
(بحوالہ: تاریخِ عثمانی از ایلبرٹ ہاورڈ، صفحہ 176)
ایران کے صفوی حکومت کے درباری مولوی:
صفوی حکومت نے دربار کے شیعہ مولویوں کو اپنے سیاسی اور مذہبی ایجنڈے کے لیے استعمال کیا۔ ان علماء نے صفویوں کی سنی مسلم مخالف پالیسیوں کو شرعی قرار دیا، جس سے فرقہ وارانہ تقسیم میں اضافہ ہوا۔
(بحوالہ: تاریخِ ایران از سر پرسی سائیکس، جلد 2، صفحہ 320)
دہلی سلطنت میں درباری علماء کا کردار:
دہلی سلطنت کے کئی ادوار میں، درباری علماء نے بادشاہوں کے جابرانہ فیصلوں کو اسلامی حیثیت دینے کی کوشش کی۔ سلطان محمد بن تغلق کے دور میں علماء نے ان کے عجیب و غریب فیصلوں پر خاموشی اختیار کی۔
(بحوالہ: تاریخِ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی، صفحہ 250)
1857ء کی جنگِ آزادی اور علماء کا کردار:
1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران کچھ علماء نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ دیا، جبکہ دربار کے دیگر علماء نے انگریزوں کی حمایت کی اور ان کی فتح کو مقدر کا فیصلہ قرار دیا۔
(بحوالہ: تاریخِ ہند از سر سید احمد خان، جلد 2، صفحہ 145)
مولوی صدرالدین دہلوی کا فتویٰ:
مولوی صدرالدین دہلوی جیسے علماء نے انگریز سرکار کے خلاف تحریکِ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمانوں کے خلاف فتوے دیے اور انگریزوں کی حکومت کو جائز قرار دیا۔
(بحوالہ: فتاویٰ علماءِ ہند از اشرف علی تھانوی، صفحہ 210)
سید احمد خان کا انگریزوں کی حمایت:
سر سید احمد خان کو انگریز دربار کے وفادار علماء میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو انگریزوں سے تعاون کی ترغیب دی اور 1857 کی جنگ کو ”غلط فہمی“، غدر اور. بغاوت قرار دیا۔ جب کہ بغاوت اور غداری جائز حکمران کے خلاف ہوتی ہیں۔انگریز نے تو زبردستی قبضہ کیا تھا۔
(بحوالہ: اسبابِ بغاوتِ ہند از سر سید احمد خان، صفحہ 78)
مولوی چراغ علی اور انگریز حکمران:
مولوی چراغ علی نے انگریزوں کے نظریات کو فروغ دینے کے لیے درباری علماء کی حیثیت سے کام کیا اور انگریزوں کے قوانین کو اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ قرار دینے کی کوشش کی۔
(بحوالہ: اسلامی اصلاحات اور مغربی اثرات از مولوی چراغ علی، صفحہ 50)
تحریکِ دیوبند کے مخالف درباری علماء:
دارالعلوم دیوبند کے قیام کے وقت، دربار کے کچھ علماء نے انگریز حکومت کے حق میں فتوے دیے اور دیوبند کے علماء کو “باغی” قرار دیا۔
(بحوالہ: تاریخِ دارالعلوم دیوبند از شبلی نعمانی، جلد 1، صفحہ 112)
مولانا قاسم نانوتویؒ کے خلاف درباری فتویٰ:
مولانا قاسم نانوتویؒ کے انگریز مخالف نظریات کے باعث، دربار کے علماء نے ان کے خلاف فتویٰ دیا اور انہیں انگریز حکومت کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔
(بحوالہ: حیاتِ قاسمی از مولانا مناظر احسن گیلانی، صفحہ 142)
انگریزوں کے زیرِ اثر درباری قاضی:
انگریزوں نے عدالتی نظام میں دربار کے علماء کو قاضی کے طور پر رکھا، جنہوں نے انگریزی قوانین کو اسلامی قوانین کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور ان کے حق میں فتوے دیے۔
(بحوالہ: تاریخِ عدالتی نظامِ ہند از علامہ شبلی نعمانی، صفحہ 120)
دربارِ دہلی کے درباری علماء کا فتویٰ:
دربارِ دہلی کے علماء نے انگریزوں کے زیرِ اثر مسلمانوں کو ہندوؤں کے ساتھ مل کر جنگ نہ کرنے کا فتویٰ دیا، جس نے تحریکِ آزادی کو نقصان پہنچایا۔
(بحوالہ: تحریکِ آزادی اور مسلمان علماء از ڈاکٹر عبدالمجید، صفحہ:87)
مولانا احمد رضا خان بریلوی انگریز کے حق میں مختلف موقف رکھتے تھے، اور ان کی تحریریں اور فتاویٰ برطانوی حکومت کے حق میں تھے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے برطانوی حکمرانی کے خلاف کوئی فعال سیاسی تحریک نہیں چلائی، لیکن انہوں نے بعض معاملات میں انگریز حکمرانوں کے ساتھ تعاون کیا اور ان کے مفادات کے حق میں فتویٰ دیے۔ ان کے انگریز کے حق میں موقف کی تفصیل یہ ہیں:
برطانوی حکومت کے قانونی فیصلوں کی تائید:
مولانا احمد رضا خان نے انگریزی حکومت کے بعض قانونی فیصلوں کو جائز قرار دیا اور مسلمانوں کو ان کی پیروی کرنے کی تلقین کی۔ ایک مثال ان کے فتویٰ کا ہے جس میں انہوں نے انگریزی عدالتوں کے فیصلوں کو شریعت کے مطابق قرار دیا۔
(بحوالہ: فتاویٰ رضویہ جلد 25، صفحہ 109)۔
برطانوی حکمرانوں کے ساتھ تعاون:
مولانا احمد رضا خان نے انگریزوں کے ساتھ سیاسی تعاون کا مظاہرہ کیا تھا، خاص طور پر جب یہ معاملہ ان کے مذہبی کاموں کی حفاظت کا تھا۔ انگریز حکمرانوں نے ان کے مدرسہ، مذہبی ادارے، اور ان کے کام کو سرکاری طور پر تسلیم کیا، اور اس کے عوض مولانا احمد رضا خان نے حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تصادم سے گریز کیا۔
(حوالہ: تاریخِ احمد رضا خان از ڈاکٹر شکیل احمد، صفحہ 220)
مولانا اشرف علی تھانوی اور انگریز سرکار:
مولانا اشرف علی تھانوی نے انگریز حکومت کے بعض اقدامات کو مسلمانوں کے لیے مفید قرار دیا، تاہم وہ مزاحمت کی تحریکوں سے دور رہے۔ ان کے اس روش کو درباری علماء کے طور پر بھی دیکھا گیا ہے۔
(حوالہ: اشرف السوانح از شبیر احمد عثمانی، جلد 2، صفحہ 65)
مولانا کرامت علی جونپوری اور انگریزوں کا تعاون:
مولوی کرامت علی جونپوری نے انگریزی تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو بھیجنے کی حمایت کی اور انگریزی حکومت کے خلاف تحریکوں سے کنارہ کشی اختیار کی۔
(بحوالہ: تحریکِ اسلامی اور علماء کا کردار از عبدالباری ندوی، صفحہ 200)
مولوی عبدالقادر بدایونی اور انگریز سرکار:
مولوی عبدالقادر بدایونی نے اپنے خطبات میں انگریز حکومت کو مسلمانوں کے لیے ”نجات دہندہ“ قرار دیا اور ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے امن و امان قائم کیا۔
(بحوالہ: فتاویٰ عبدالقادر، جلد 2، صفحہ 145)
مولانا عبد الشکور کا انگریزوں کے ساتھ تعاون:
مولانا عبد الشکور نے برطانوی حکومت کے حق میں فتوے دیے تھے کہ انگریزوں کی حکومت مسلمانوں کی دینی آزادی کو متاثر نہیں کرتی اور یہ کہ انگریزی حکمرانی میں مسلمانوں کو بہترین انتظامی اور قانونی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ انہوں نے انگریزوں کے ساتھ مکمل تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔
(بحوالہ: اسلامی فتاویٰ اور انگریز حکومت از ڈاکٹر محمد یوسف، صفحہ 160)
مولانا احمد اللہ گجراتی کا انگریزوں کے ساتھ تعلق:
مولانا احمد اللہ گجراتی نے بھی انگریز حکمرانی کی حمایت کی تھی اور انگریزوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ انگریزوں کی حکومت مسلمانوں کے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کے دینی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ ان کے فتوے نے انگریز حکومت کے حق میں ماحول بنانے میں مدد کی۔
(بحوالہ: مولانا احمد اللہ گجراتی اور انگریز حکومت از ڈاکٹر محمد جاوید، صفحہ 140)
یہ واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ انگریزوں نے اپنے درباری علماء کو بالواسطہ یا بلا واسطہ مختلف طریقوں سے نوازا تاکہ وہ حکومتی پالیسیوں کو تقویت دیں اور مسلمانوں میں انگریزوں کے حق میں رائے عامہ پیدا کریں۔ ان انعامات اور مراعات کے ذریعے انگریزی حکمرانی کو مذہبی اور سماجی جواز فراہم کیا گیا۔
یہاں تک تو سنی درباری علماء، دربار نشینی کے کردار اور خدمات میں پیش پیش تھے، اب ذرا شیعہ علماء کا بھی سرسری طور پر جائزہ لیتے ہیں کہ انہوں نے بھی انگریز حکمرانی کے دور میں بعض معاملات میں انگریزوں کی حمایت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جن شیعہ علماء نے برطانوی حکومت کے حق میں فتاویٰ دیے یا تعاون کیا۔ ان کے درجنوں میں سے صرف چند واقعات ذکرتے ہیں تاکہ دورِ حاضر کے شیعوں کو بھی اپنی صفوں میں ایسے درباریوں کو تلاش کرنے میں آسانی ہو۔
شیعہ علماء کا انگریزوں کے ساتھ سیاسی تعاون:
انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو کئی شیعہ علماء نے انگریزوں کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم کیے۔ ان میں بعض علماء نے انگریزوں کی حکمرانی کو مستحکم کرنے میں مدد کی اور حکومتی فوائد حاصل کیے۔ شیعہ علماء کے ایک گروہ نے انگریزوں کی جانب سے مسلم امور میں مداخلت کو قبول کیا اور ان کے فیصلوں کے حق میں فتویٰ دیے۔
(بحوالہ: تاریخِ شیعہ علماء از ڈاکٹر فضل عباس، صفحہ 175۔)
میر تقی الدین کی برطانوی حکومت کے حق میں حمایت:
شیعہ عالم میر تقی الدین نے برطانوی حکمرانی کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے انگریزوں کے لیے فتوے دیے کہ ان کی حکومت اسلام کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور انگریزی قانون مسلمانوں کے لیے مناسب ہے۔ ان کا یہ موقف انگریزی حکومت کے مفادات کے حق میں تھا، اور ان کے فتاویٰ مسلمانوں کو انگریز حکومت کے ساتھ تعاون کی ترغیب دیتے تھے۔
(بحوالہ: شیعہ علماء اور انگریزی حکمرانی از ڈاکٹر اسد علی، صفحہ 220)
شیعہ علماء کا انگریزوں کے زیرِ اثر دینی اداروں کی تائید:
شیعہ علماء نے انگریزوں کے زیرِ اثر بعض دینی اداروں کی تائید کی تھی۔ ان اداروں میں دینی تعلیمات کی ترویج کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی حکومتی پالیسیوں کو بھی پذیرائی دی جاتی تھی۔ خاص طور پر شیعہ علماء نے انگریزوں کے تعلیمی اور انتظامی اقدامات کی تائید کی تھی، جن کے ذریعے وہ مسلمانوں کو انگریزی حکومت کے حق میں رائے دینے کی کوشش کرتے تھے۔
(بحوالہ: شیعہ معاشرتی اثرات از ڈاکٹر محمود حسین، صفحہ 185)
یہ واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ بعض شیعہ علماء نے انگریز حکمرانی کے دوران حکومتی پالیسیوں کی حمایت کی اور مختلف طریقوں سے انگریزوں کے مفادات کے حق میں فتوے دیے۔ ان کے یہ اقدام خاص طور پر انفرادی یا جماعتی مفادات سے جڑے ہوئے تھے، اور انہوں نے انگریزوں کے ساتھ سیاسی و مذہبی تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔
انگریز حکمرانی کے دوران بعض اہل حدیث علماء نے مختلف مواقع پر انگریزی حکومت کے حق میں فتوے دیے اور اس کے ساتھ تعاون کیا۔ یہاں صرف چند واقعات بطور نمونہ درج کرتے ہیں تاکہ اہل حدیث حضرات اپنی صفوں میں دورِ حاضر کے چاپلوس مولویوں کو بآسانی تلاش کرسکیں۔
مدراس کے علماء اور انگریزوں کا تعاون:
مدراس کے اکثر علماء نے انگریز حکومت کے تحت کام کرتے ہوئے اسلامی قوانین میں انگریزی قوانین کی آمیزش کو جائز قرار دیا، اور انگریزوں کے عدالتی نظام کی حمایت کی۔
(بحوالہ: مدراس کی مسلم تاریخ از ڈاکٹر محمد یوسف، صفحہ 90)
انگریزوں کی سرپرستی میں مدارس کی تشکیل:
انگریزوں نے کئی مدارس قائم کیے، جہاں درباری علماء کو مقرر کیا گیا تاکہ وہ انگریز قوانین اور اسلامی اصولوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کریں۔ ان مدارس نے انگریز حکومت کے لیے عوام کو قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
(مدارس اور انگریزی حکومت از مولانا عبدالحلیم شرر، صفحہ 67)
یہ واقعات اس دور میں علماء کے مختلف رویوں کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں کچھ نے اپنی خودمختاری اور حق گوئی کا مظاہرہ کیا، جبکہ دیگر انگریزوں کے ساتھ مفادات کے لیے وابستہ رہے۔ یہ واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ انگریز دور میں درباری علماء کی اکثریت نے حکومتی مفادات کےلیے مذہب کا سہارا لیا، جبکہ چند علماء نے ان کے خلاف کھڑے ہو کر اپنی آزادی کا ثبوت دیا، انگریز دور میں درباری علماء کا کردار اکثر حکمرانوں کے حق میں رہا، جس سے انگریزوں کو اپنی حکومت مستحکم کرنے میں مدد ملی۔ ان میں سے کئی علماء نے دینی اصولوں کے بجائے سیاسی مفادات کو ترجیح دی، جب کہ دیگر نے انگریزوں کی مخالفت کی اور حق کی بات کہنے کی قیمت چکائی۔
ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ درباری علماء مختلف ادوار میں حکمرانوں کی حمایت کے لیے اپنے منصب کا استعمال کرتے رہے ہیں، لیکن کچھ علماء نے اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہ کرتے ہوئے ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ درباری علماء ہمیشہ طاقتور حکمرانوں کے دباؤ میں آ کر یا لالچ میں آ کر اپنے کردار سے منحرف ہوئے، مگر حق پرست علماء نے ہمیشہ ان کا مقابلہ کیا اور قربانیاں دیں۔ درباری علماء اکثر طاقتور حکمرانوں کے دباؤ یا لالچ کا شکار ہو جاتے ہیں، جبکہ حق پر قائم رہنے والے علماء کو ہمیشہ آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔
درباری علماء کو حکمرانوں کی جانب سے دی جانے والی مراعات کیا تھے؟ جاتے جاتے اس پہلو کا بھی ذرا جائزہ لیتے ہوئے ان مراعات کا اپنے عہد کے مولویوں کو دہے جانے والے مراعات کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں، جس سے کئی ایسے مراعات یافتہ علماء جنہیں ہم حق اور سچ سمجھ رہے ہیں، کے چہروں سے آپ خود بھی نقاب اٹھا سکتے ہیں۔
عہدے اور منصب:
درباری علماء کو حکمرانوں کے دربار میں اہم عہدے دیے جاتے تھے۔ مغلیہ سلطنت میں قاضی القضاۃ اور شاہی مفتی کے عہدے علماء کو دیے جاتے تھے تاکہ وہ حکومت کے فیصلوں میں مداخلت کریں اور ان کے حق میں فتوے دیں۔ حوالہ: تاریخِ مغلیہ از ڈاکٹر شبیر احمد عثمانی، صفحہ 220۔
جاگیریں اور زمینیں:
مغلیہ سلطنت میں علماء کو جاگیریں دی جاتی تھیں، تاکہ وہ حکمرانوں کے ساتھ وفادار رہیں اور حکومتی پالیسیوں کی حمایت کریں۔
(تاریخِ اسلام اور جاگیری نظام از ڈاکٹر عبداللہ، صفحہ 198)
مالی امداد اور تنخواہیں:
مغلیہ اور انگریزی حکام درباری علماء کو وظائف یا مالی امداد دیتے تھے تاکہ وہ حکومت کے ساتھ وابستہ رہیں اور ان کے فیصلوں کی حمایت کریں۔
(مغل سلطنت اور علماء از ڈاکٹر آصفہ جاوید، صفحہ 150)
تعلیمی اداروں کی سرپرستی:
درباری علماء کو مدارس کی سرپرستی دی جاتی تھی، جنہیں حکومت مالی امداد فراہم کرتی تھی تاکہ یہ ادارے حکومتی مفادات کے حق میں تعلیم دے سکیں۔
(تحریکِ علی گڑھ اور درباری علماء از ڈاکٹر ضیاء الدین، صفحہ 200)
محلات اور رہائش گاہیں:
سلطنتِ دہلی اور مغلیہ سلطنت میں درباری علماء کو شاہی محلات کے قریب رہائش دی جاتی تھی تاکہ وہ دربار کے اجلاسوں میں شریک ہو سکیں۔
(دربارِ مغلیہ از ڈاکٹر محمد حنیف، صفحہ 143)
تحائف اور مراعات:
درباری علماء کو قیمتی تحائف، زیورات، اور سواریوں کے طور پر گھوڑے یا ہاتھی دیے جاتے تھے تاکہ وہ حکومتی وفاداری کا اظہار کریں۔
(تاریخِ مغلیہ از ڈاکٹر رشید احمد صدیقی، صفحہ 190)
سماجی حیثیت میں اضافہ:
درباری علماء کو حکومتی سرپرستی سے سماجی حیثیت ملتی تھی اور ان کے فتوے عوام میں اثر انداز ہو جاتے تھے-
(اسلامی دنیا کے درباری علماء از ڈاکٹر عبدالمجید، صفحہ 170)
عدالتی اور قانونی اختیار:
درباری علماء کو قاضی یا مفتی کے عہدے پر تعینات کیا جاتا تھا، جہاں وہ حکومت کے فیصلوں کو اسلامی جواز فراہم کرتے۔
(فتاویٰ اور مغل عدلیہ از ڈاکٹر رفیق احمد، صفحہ 220)
سفر اور حج کے اخراجات:
مغلیہ دور میں علماء کو حج یا دیگر مذہبی مقامات کے سفر کے لیے حکومتی خرچ پر بھیجا جاتا تھا تاکہ وہ اسلامی دنیا میں حکومتی اثر و رسوخ بڑھائیں۔
(مغلیہ سلطنت اور دینی خدمات از مولانا عبدالباری، صفحہ 125)
کتب کی اشاعت اور علمی کاموں کی سرپرستی:
حکمرانوں نے علماء کی تصانیف کی اشاعت کی سرپرستی کی، تاکہ وہ اپنی علمی خدمات کے ذریعے حکومت کی پالیسیوں کو جائز قرار دے سکیں۔
(علمی سرپرستی اور سلطنتِ مغلیہ از ڈاکٹر سید حسین، صفحہ 110)
وظائف اور مالی امداد:
انگریزوں نے درباری علماء کو باقاعدہ وظائف دینے کا نظام قائم کیا، جس سے ان کے مالی حالات بہتر ہوئے اور وہ حکومت کے حق میں فتوے دینے میں متحرک ہوئے۔
(تاریخِ علی گڑھ اور انگریز از ڈاکٹر ضیاء الدین، صفحہ 176)
سرکاری عہدے:
انگریزوں نے کئی علماء کو مختلف سرکاری عہدوں پر فائز کیا، جیسے مفتی، قاضی، اور مذہبی مشیر، تاکہ وہ مسلمانوں کے دلوں میں انگریزی حکمرانی کے لیے نرم گوشہ پیدا کریں۔ (برطانوی ہندوستان میں مذہبی اصلاحات از ڈاکٹر منصور حسین، صفحہ 90)
جاگیریں اور زمینیں:
انگریزوں نے درباری علماء کو جاگیریں یا زمینیں دی تاکہ وہ اپنے مذہبی اثر و رسوخ کو حکومت کے حق میں استعمال کریں۔ (انگریزی حکمرانی اور علماء از ڈاکٹر محمد عباس، صفحہ 130)
تعلیمی اداروں کی سرپرستی:
انگریز حکومت نے علی گڑھ یونیورسٹی جیسے اداروں کی سرپرستی کی، جہاں درباری علماء کو پروفیسر یا اساتذہ کے طور پر مقرر کیا گیا تھا تاکہ وہ انگریزی تعلیم کو مسلمانوں میں فروغ دیں۔
(علی گڑھ تحریک اور انگریز از ڈاکٹر ناصر محمود، صفحہ 150)
انگریزی قانون کی حمایت کے فتوے:
انگریز حکام نے درباری علماء سے انگریزی قوانین کے حق میں فتوے حاصل کیے، تاکہ ان کے فیصلے اسلامی شریعت کے مطابق جائز قرار دیے جا سکیں اور مسلمانوں کو انگریزی عدالتی نظام میں شامل کیا جا سکے۔
(برطانوی قوانین اور مسلم علماء از ڈاکٹر اسلم اختر، صفحہ 165)
جاسوسی کی خدمات:
انگریز سرکار اپنے وظیفہ خوار مولویوں سے جاسوسی کا کام بھی لیتا تھا، تحریک آزادی کے دوسرے دور میں دیوبند سے جو تحریک مولانا محمود حسن نے چلائی تھی، اس کی جاسوسی دیوبند کے اس وقت کے مہتمم مولانا حافظ محمد احمد نے کی تھی، جنہیں کئی انعامات سے نوازا گیا اور سرکار کی طرف سے شمس العلماء کا بھی خطاب دیا گیا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ انگریز کی باقیات ہے اور تقی عثمانی جیسے درباری مولوی اس باقیات کے کل پرزے ہیں۔
ریاستی اعزازات:
انگریزوں نے درباری علماء کو ریاستی اعزازات دیے جیسے “سر” کا خطاب، تاکہ انہیں معاشرتی وقار ملے اور عوام میں ان کی حیثیت بڑھے۔
(برطانوی ہندوستان میں مذہبی و سیاسی تبدیلی از ڈاکٹر غلام حسین، صفحہ 212)
آزاد تجارت اور تجارتی فائدے:
درباری علماء کو تجارتی مراعات اور کاروبار میں حصص دیے جاتے تھے تاکہ وہ اپنی دولت میں اضافہ کریں اور حکومتی حمایت کے عوض انگریزوں کے مفادات کا دفاع کریں۔
(انگریزوں کی اقتصادی حکمت عملی از ڈاکٹر سلیمان خان، صفحہ 245)
شاہی دربار میں موجودگی:
درباری علماء کو شاہی دربار میں اہمیت دی جاتی تھی، جہاں انہیں مذہبی اور سماجی امور پر مشورہ دینے کا موقع ملتا تھا۔ ان کی موجودگی حکومتی پالیسیوں کو مذہبی جواز فراہم کرنے کے لیے ضروری سمجھی جاتی تھی۔
(برطانوی ہندوستان میں مذہبی امور از ڈاکٹر طارق جاوید، صفحہ 180)
حکومتی پالیسیوں کے حق میں فتوے:
انگریز حکمرانوں نے درباری علماء کو حکومتی پالیسیوں کے حق میں فتوے دینے کی ترغیب دی تاکہ وہ مسلمانوں میں حکومت کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کر سکیں۔
(انگریزوں کی سیاسی حکمت عملی از ڈاکٹر خورشید احمد، صفحہ 185)
قانونی اختیارات کی تفویض:
درباری علماء کو بعض قانونی اختیارات دیے جاتے تھے، جیسے قضاوت یا فقہی مشاورت، تاکہ وہ مسلمانوں کے لیے حکومت کے قانون کو اسلامی جواز فراہم کر سکیں۔
(برطانوی ہندوستان میں عدلیہ از ڈاکٹر حسانہ بانو، صفحہ 220)
مذہبی تصانیف کی سرپرستی:
انگریزوں نے بعض درباری علماء کو مذہبی کتابوں کی تصنیف اور اشاعت کے لیے مالی معاونت فراہم کی، تاکہ ان کے ذریعے مسلمانوں میں انگریزی حکمرانی کی حمایت کی جائے۔
(علمی تعاون اور برطانوی حکومت از ڈاکٹر سعید احمد، صفحہ 200)
نظریاتی حمایت کے بدلے مالی انعامات:
انگریز حکمرانوں نے درباری علماء کو اپنے نظریات کی حمایت کے بدلے مالی انعامات دیے، جن میں نقد رقم یا زمینوں کا تحفہ شامل تھا تاکہ وہ مسلمانوں میں انگریزی حکمرانی کے حق میں آواز اٹھائیں۔
(انگریزی حکمرانی اور مسلمانوں کی سیاست از ڈاکٹر سرفراز حسین، صفحہ 180)
پریس اور میڈیا کی سرپرستی:
انگریزوں نے درباری علماء کو پریس اور میڈیا کے ذریعے اپنے نظریات کو پھیلانے کی آزادی دی۔ بعض علماء کو انگریزی حکومت کے حق میں مضامین لکھنے یا تقاریر کرنے کے لیے تحریری تعاون دیا گیا۔
(برطانوی ہندوستان میں صحافت اور مذہب از ڈاکٹر نجم الدین، صفحہ 210)
شاہی دربار میں مذہبی مشاورت:
درباری علماء کو شاہی دربار میں مذہبی مشیر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا تاکہ وہ حکومتی فیصلوں کو مذہبی جواز فراہم کریں اور ان کے حق میں فتویٰ دیں۔
(برطانوی ہندوستان میں مذہبی دربار از ڈاکٹر ضیاء الدین، صفحہ 195)
مذہبی ہدایات کے عوض گرانٹ:
انگریز حکومت نے علماء کو مخصوص مذہبی ہدایات دینے کے بدلے گرانٹ یا وظیفہ دیا تاکہ وہ عوامی سطح پر انگریزوں کے مفاد میں رائے قائم کریں۔
(برطانوی حکمت عملی اور علماء از ڈاکٹر حبیب الرحمان، صفحہ 180)
برٹش راج کے حق میں درباری مفتریوں کے فتوے:
درباری علماء کو انگریزی حکمرانوں کے حق میں فتوے دینے کے بدلے اعلیٰ اعزازات اور جائیدادیں دی جاتی تھیں تاکہ وہ اسلامی معاشرتی دائرے میں انگریزوں کی حکمرانی کو جائز قرار دیں۔
(انگریزی فتوے اور مسلمانوں کی سیاست از ڈاکٹر مشتاق احمد، صفحہ 215)
رنگین تحائف اور ایوارڈز:
انگریز حکمرانوں نے بعض درباری علماء کو خصوصی رنگین تحائف، زیورات، اور دیگر قیمتی سامان دیے تاکہ ان کی وفاداری کو پختہ کیا جا سکے اور ان کو اپنی حمایت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ترغیب دی جا سکے۔
(برطانوی ہندوستان میں مذہبی شراکت داری از ڈاکٹر شہزاد احمد، صفحہ 250)
درباری علما کا وجود ہمیشہ سے حق و باطل کے معرکے میں باطل کا سہارا رہا ہے۔ ان کی علمیت، اگرچہ ظاہری طور پر روشن، حقیقت میں ظلم کے اندھیروں کی معاون ثابت ہوئی۔ تاریخ کا یہ باب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ علم اگر حق کا علمبردار نہ ہو تو صرف غلامی کا زیور بن جاتا ہے۔ ان کا کردار تاریخ کے ہر موڑ پر دین کے حقیقی پیغام کو کمزور کرنے کا باعث بنا ہے۔ ان کی وفاداریاں ہمیشہ اقتدار سے وابستہ رہیں، جس سے حق کی آواز دبائی گئی اور ظلم کو جواز فراہم ہوا۔ یہ حقیقت ہمیں سکھاتی ہے کہ علم اور دین صرف اس وقت زندہ رہتے ہیں جب وہ حریت فکر اور حق گوئی کے اصولوں پر قائم ہوں۔ درباری علما نے ہمیشہ اپنے علم کو اقتدار کی چمک کے سامنے جھکا دیا، جس سے دین کی اصل روح کمزوری کا شکار ہوئی۔ ان کی تحریر اور تقریر نے صرف حکومتی مفادات کی تائید کی، نہ کہ حقیقت کی جستجو کی۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ علم تب تک عظیم نہیں جب تک وہ ظلم و جبر کے خلاف آواز نہ اٹھائے، اور اہلِ حق کے ساتھ کھڑا نہ ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں