عشق اور غلامی ۔ شپ چراگ

383

عشق اور غلامی
تحریر: شپ چراگ
دی بلوچستان پوسٹ

عشق وہ مقدس جزبہ ہے جو انسان کو اُس کی زات سے کہیں دور محبوب کے ساتھ جوڑ لیتا ہے. عشق اُس احساس کا نام ہے جس میں عاشق پوری جہان کو ایک محبوب میں پا لیتا ہے، محبوب کہ بغیر پورے جہاں میں اندھیرا چھا جاتا ہے کچھ نظر نہیں آتا.

عشق دنیا کا سب سے خطرناک نشہ ہے، میں اسے نشہ ہی کہوں گی کیونکہ جب ایک بار لت لگ جاۓ تو پھر چھوٹ نہیں سکتی بس بڑھتی جاتی ہے اور جب عشق ہو جاۓ تو انسان ہوش میں نہیں رہ سکتا. عشق میں ہوش برقرار رہے ایسا ہونا ناممکن ہے. عشق وہی سرور ہے جو دل میں جمی ساری نفرت، حسد، غرور اور تکبر کو ختم کردیتا ہے، جس دل میں عشق بس جاۓ وہ کوئی اور احساس رکھنے سے قاصر ہوگا اور جس دل میں عشق سما جاۓ وہ ساری سماجی برائیوں سے پاک ہو جاتاہے.

عشق بے زبان ہوتا ہے یہ بیان نہیں ہو پاتا، جس دل نے عشق کیا ہو صرف وہی اس راز سے واقف ہوگا. عشق یہ نہیں دیکھ پاتا کہ محبوب مل سکتا ہے یا نہیں بس ہوجاتا ہے.

عشق ہو جاۓ تو دیارِ دل میں ہر طرف بہار چھا جاتی ہے ، عشق زندگی کو ایک میٹھا سا رنگ دیتا ہے. اور جب عاشق سے اُس کا محبوب جدا ہوتا ہے تو اُس کی دنیا فنا ہو جاتی ہے. محبوب کے جدا ہونے سے دیارِ دل کی بہاریں خزاں میں بدل جاتی ہیں.

ہم ایک غلام معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں ، اور غلام قوموں کا جو عشق ہوتا ہے اُس کی کوئی منزل نہیں ہوتی یا پھر جدائی ہی ان کی منزل بن جاتی ہے. غلام قوم کی داستانِ عشق میں محبوب تو گلزمین کے سینے میں دفن ہو جاتا ہے لیکن عاشق یادوں اور ارمانوں کو اپنے سینے میں پیوند کرکے ایک زندہ لاش بن جاتا ہے.

ہمارے قوم اور معاشرے پر قبضہ گیر کے ایسے اثرات ہیں کہ ہمارے لوگ آسانی سے اپنے غلامی کو محسوس نہیں کر پاتے ہر چیز کو قسمت کا لکھا سمجھ کر برداشت کرتے ہیں.

لیکن جو اس غلامی کو محسوس کرتے ہیں اسے قسمت کا لکھا نہیں سمجھتے تو وہ غلامی کو مٹانے اور مادر وطن کی آبرو کو بچانے کےلیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور ہمیشہ کےلیے امر ھو جاتے ہیں۔
جب مجھ سے میرا جہاں میری زندگی جدا ہوا، وہ گلزمین کہ عشق میں نمیران ہوا، میرے دل کا دیار ویران ہوا میرے پاس صرف اُس کی یادیں رہ گئی، میرا خوشیوں بھرا دامن خالی ہوگیا. مجھے جس وقت اُس کی یادیں رلاتی ہیں، تڑپاتی ہیں تو اُس پل مجھے اپنے درد سے زیادہ اپنے قوم کی غلامی کا احساس ہوتا ہے میں بس یہی کہہ سکتی ہوں کہ غلام قوم کےلیے کوئی عشق نہیں ہوتی ، وطن اور اسکی آجوئی کے بغیر!
اگر ہمارا قوم غیر کی غلامی جیسے ناسور سے بندا ہوا نہ ہوتا، ہم آزاد ہوتے تو آج میری زندگی، میرا ہم سفر میرے ساتھ ہوتا، ہم ہاتھوں میں ہاتھ لیئے اس وقت بولان کے پہاڑوں میں کچاری کر رہے ہوتے، ہم گوادر کے سمندر کے کنارے بیٹھے لہروں کی گہرائی میں اپنے محبت کو محسوس کرتے، ہم کوہِ باتیل کے چوٹی پہ بیٹھ کر اپنے سرزمین کا نظارہ کرتے، ہم مُنگل کہ کوہِ ماران میں ایک ساتھ بیٹھ کر چاۓ پیتے اور ہم چلتن جان میں اپنا چھوٹا سا گِدان بناتے اور وہاں اپنی وہ زندگی جیتے جس کا ہم نے مل کر حسین خواب دیکھا تھا… لیکن ہمارا یہ خواب ہمشہ کہ لیۓ پر درد ارمان بن کے رہ گیا. ہم ایک غلام قوم کے باسی ہیں ہمارا ملنا اس جہاں میں کسی صورت ممکن نہیں تھا. اور سنا ہے کہ خداوند نے فرمایا ہے جن مسلمانوں کا اس جہاں میں نکاح ہوا ہے وہ اُس جہاں میں بھی ایک ساتھ ہونگے ایک دوسرے کا ہم سفر بن کر، اس جہاں میں تو ہمارے ملنے کو ناممکن بنا دیا ہماری غلامی نے اور اُس جہان میں پہلے سے ہماری جدائی لکھی ہوئی پے. یا خدا غلامی کی اتنی بڑی سزا کیوں۔

اسی طرح کی بہت سی داستانیں مادر وطن کے سینے میں دفن نرمزاروں کے ہیں. جب وطن کے آبرو کی بات آتی ہے تو سمل اپنے ریحان کو “رخصت اف اوارن” کہہ کر الوداع کرتی ہے اور شپ چراگ اپنے آفتاب کو۔

وہ آفتاب جس کے طلوع ہونے سے سارا جہاں روشن ہو جاتا ہے اور غروب ہونے سے اندھیرا. لیکن میرا آفتاب غروب نہیں ہوا بلکہ مزید شدت کے ساتھ دوبارہ طلوع ہو رہا ہے اور اسکی یہ شدت قبضہ گیر کو جلا کر راکھ کردے گی اور مادر وطن کو آجوئی نصیب ہوگی.


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں