شہیدوں کو فراموش نہ کرنا ۔ سمیرا بلوچ

105

شہیدوں کو فراموش نہ کرنا

تحریر: سمیرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“تم مجھے خون دو میں تمھیں آزادی دوں گا” انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے لیے یہ نعرہ نیتا سبھاش چندر بوس نے ہندوستانیوں کو دیا تھا۔ نیتا جی کا ہندوستان کی آزادی میں ایک اہم کردار تھا۔ انکی کہانی تو انکے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ختم ہوگئی ، لیکن انکا جو کردار رہا تھا، وہ اب بھی زندہ ہے۔ کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن کردار ہمیشہ زندہ رہتا ہے.

اس فانی دنیا میں شہید کا جو کردار ہے،بس وہی لافانی رہتا ہے۔ اگر عشق حقیقی پر غور کیا جاۓ، وطن سے جو عشق ہوتا ہے۔ ویہی عشق حقیقی کہلاتا ہے۔ اپنی جان کو خوشی کے ساتھ ،ہنس کر قربان کرنا ، بغیر کسی غرض، بغیر کسی لالچ اور لاحاصل کے لیے یہی تو عشق اور جنون کہلاتا ہے! کہا جاتا ہے ، کہ شہید کی جو موت ہوتی ہے وہ قوم کی حیات ہوتی ہے۔

ایک قوم کا وجود تبھی قائم رہ سکتا ہے ، جب اسکے فرزند اپنی قیمتی جانوں کی قربانیوں سے اسکی آبپاری کرۓ۔ 13 نومبر کو بلوچ قوم اپنے شہید فرزندوں کی قربانیوں کو یاد کرکے انکو نسل در نسل تک منتقل کرنے کے لیے اس دن انھیں خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔ ان شہیدوں کے عظیم قربانیوں کے سامنے قوم کی طرف ایک چھوٹا سا نذرانہ ہوتا ہے۔ جو انکو دیا جاتا ہے۔ انسان کے پاس اگر کوئی بہت ہی قیمتی اثاثہ ہوتا ہے ، تو یقین جانو ، وہ اسکی زندگی ہوتی ہے۔ اور زندگی اتنی انمول اور عزیز چیز ہوتی ہے کہ اسے کوئی بھی گنوانا نہیں چاہتا یا چاہتی ہو گی۔ جان کا نذرانہ دینا، وطن کے لیے ہر کسی کے بس کی بات ہی نہیں ہیں۔ جو اپنی جانوں کو وطن کے لیے قربان کرتے ہیں۔ وہ اتنے عظیم اور بہادر ہوتے ہیں۔اس دنیا میں رہنا اور زندگی گزارنا درحقیقت ایسے بہادر انسانوں کا حق ہوتا ہیں۔ لیکن ایسے بہادر سپوت نایاب ہوتے ہیں ۔ اسی لیے اللّٰہ انکو امر ہونے کا درجہ نصیب کرتا ہے۔

میں تاریخ سے متعلق جب ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔ تو اسکے منصف نے اپنے پیش لفظ میں لکھا تھا ۔ کسی جنگ کو کامیاب کرنے میں سپہ سالار سے زیادہ ان سپاہیوں کا کردار ہوتا ہے۔ جو سپہ سالار کے حکم کی تعمیل میں بلا جھجک عمل کرتے ہیں۔ اور بلاخوف میدان میں جاکر اس فلسفے کے ساتھ لڑتے ہیں، یا تو جیت یا موت۔ ایک سپہ سالار تبھی اپنی جنگ کو جیت سکتا ہے، جب اسکے سپاہی اپنی صفوں میں منظم ہو کر ڈٹ کر لڑۓ۔ اس فلسفے پر عمل پیرا ان سپاہیوں کے کردار کے بارے میں جنکے متعلق میں تاریخ کے کتابوں میں پڑھتی تھیں ، ان کرداروں کو میں حالیہ بلوچ کی آزادی کے تحریک میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔ ہر کردار خود میں ایک عظیم کہانی ہے۔ بلوچ کو اپنی صفوں میں دانشوروں کو پیدا کرنا چاہیے۔ جو ان عظیم نوجوانوں پر کتابیں لکھ کر انکے کردار کو محفوظ کرکے انکو اگلی آنے والی نسلوں تک منتقل کرۓ۔کردار بھی ایسے جن کی مثال تاریخ میں بہت ہی کم ملتی ہے۔

80 سال کا بزرگ نواب اکبر خان بگٹی ہو جو بغاوت کا علم بلند کرکے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا کر ظلم کے خلاف لڑا کر شہادت کو قبول کرتا ہے۔ استاد اسلم بلوچ اور انکی اہلیہ کا اپنے جوان سال بیٹے کو خوشی کے ساتھ وطن کے لیے قربان ہونے کے لیے رخصت کرنا، شہید مشہدار سمالانی کے دو جوان سال بیٹےاپنے والد کے مرید بناکر انکی راہ پر گامزن ہوکر سرمچار بنا اور خود کو ایک ساتھ ہی وطن کے لیے قربان کرنا ، یہ وہ ناقابل فراموش کردار ہیں۔ جنکے لیے ہمیں اپنے شہداء کے یاد میں صرف ایک دن مختص نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ ہمیں اپنے ہر دن اور ہر لمحے میں انکو اپنی اور اپنی آنے والی نسل کے دلوں میں زندہ رکھنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔

شہدا کو زندہ ہم اپنی موسیقی کی صورت میں رکھ سکتے ہیں ، یا رزمیوں کی شکل میں ہو، یا لٹریچر کی شکل میں ،یا انکی زیر استعمال چیزوں کو حفاظت کے ساتھ رکھ کر آزاد وطن کی وجود کے بعد میوزیم بناکر شہداء کو انکی تصاویر اور سکلرپیرچرز کی صورت میں قوم کے دلوں اور یاداشتیوں میں زندہ رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں ، ہمیں اپنے شہداء کو اپنی صفوں میں زندوں کی طرح رکھنا ہوگا۔ تاکہ ہماری آنے والی نسل کے دلوں میں وطن کی حفاظت اور اسکی حرمت کی پاسبانی کے لیے اپنے انہی ہیروز کے راہ پر گامزن اور عمل پیرا رہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں