“شارولِ ءِ ہمراہ انت سمول ءُ مئے ماھولو”
سنگت میرک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اگر ہم بلوچوں کی تاریخ دیکھیں تو بلوچ قوم نے ہر دور میں ہر ظالم کے خلاف اپنے سچے جذبوں،مضبوط فکر و سوچ اور بہادر حوصلوں کے ساتھ ہر ظلم کے خلاف مزاحمت کی ہے۔اس جنگ میں بلوچ کے ہر طبقے میں شامل لوگوں نے اس مزاحمتی سوچ کو آگیا بڑھایا ہے اور اس مزاحمتی جہد میں اگر ہم دیکھیں تو بلوچ شیر زال خواتین کی ایک بڑی کردار ہے بانڑی نے ھندوستان کی جنگ کی کمان خود سنبھالی تھی ،دادشاہ بلوچ کی بہنوں نے اپنی بھاہیوں کے ساتھ ایرانی فوج کے ساتھ مسلح جنگ لڑی اور ایک عورت کے ناطے ایک ہفتے تک بغیر پانی اور اور بغیر خوراک کے ایک ہفتے تک لڑتی رہی۔ صدیوں سے محیط یہ مزاحمتی سوچ بلوچوں کے رگ رگ میں گردش کرتی آرہی ہے اور نسل در نسل یہی مزاحمتی سوچ پرورش پاتی رہی ،اسی مزاحمتی سوچ کی پروش سے ایک ماں فدائی شارول ہمارے اس عہد کا عظیم مثال ہے جو اسی مزاحتمی سوچ کو لیکر اپنے دو معصوم بچوں ماھو اور میرو کو اپنی مہر مامتا سے دور کرکے بلوچستان کی آزادی اور آنے والے نسلوں کی خوشحالی کے لئے خود کو مہر زمین ،عشقِ وطن اور فکر و نظریہ ِ اسلم پہ قربان کر دیتی ہیں اور بوچ قوم کے لئے ایک روش راستہ کھلنے کا چیدگ بن جاتی ہے اور خود دائمی بقاء کی وادی میں رہ کر پاک زمین کی آغوش میں ابدی نیند سوجاتی ہیں۔ بلوچ شیر زال شہید فدائی سمیعہ اور شہید فدائی ماھل فکر و نظریہِ اسلم اور شارول کو چیدگ بناکر اپنے جسم کے ٹکڑوں کو فضاء بلوچستان میں شامل کرکے اسی راہ و فکر کا نیا چیدہ اور مثال بن جاتی ہیں۔
عظیم ماں شارول نے مکمل شعوری ادراک رکھتے ہوئے نظریاتی اور فکری سطح کی انتہا پہ پہنچ کر بی ایل اے میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد مجید برگیڈ کا فدائی بن کر قابض ریاست اور عالمی سامراج چین کے سامراجی عزائم پہ ایسے حملہ اوار ہوئی کہ اسکی ایوانین لرز اٹھیں، جس کی وجہ سے ساری بلوچ قوم میں ایسی کیفیت اور احساسات نے جنم لیا کہ بلوچ قومی تاریخ میں 26اپریل 2022 کا دن ایک نیا نقطہ آغاز اور تاریخ کے صحفوں میں ایک نئے اور روشن باب کا آغاز بنا۔ جب فدائی ماں شاری چینی کنفیوشس انسٹیوٹ کے امپیرلسٹ آلہ کاروں کو ایک فدائی حملہ کا نشانہ بناکر پہلی بلوچ فدائی خاتون کا اعزاز حاصل کرتی ہیں۔ ماں شاری بلوچ کا فدائی کردار جہاں تاریخ کے تختی پرہمیشہ سرخرو رہے گا وہیں ماں شاری کے اس عمل نے چینی و پاکستانی ایوانوں میں ایک بھونچال برپا کردی ہے، اور بلوچ عورتوں کے لیے ایک کاروان کا آغاز کیا اور پھر اسی کاروان میں ایک 25 سالہ بلوچ شیر زال فدائی سمیعہ چہرے پر دشمن کیلئے پرکالہ آفت اور دل میں سرزمین کیلئے مہر لیئے، تربت کی تپتی دھوپ میں کھڑی اور سینے پر بارود باندھے دشمن پر ٹوٹ پڑتی ہے اور ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتی ۔فدائی سمیعہ مکمل ایک نئی تاریخ بن جاتی ہیں ۔جو عشق زمین اور مہر ریحان لیکر مکمل پختہ سوچ سے اپنی انقلابی کمٹتمنٹ سے قوم کے ہمت اور حوصلوں سے بھری مزاحمتی جد و جہد کا نیا دریچہ کھل لیتی ہیں ۔یہی قربانی سالوں تک ہماری قوم کی راہنمائی کرتی رہیں گئی۔
سمیعہ کے بعد فدائی ماہل آپریشن ہیروف میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مشن سرانجام دیتی ہے اور آپریشن ہیروف کا آغاز کرتی ہے۔
ماھلو ایک ایسی جنگ کا آغازکرتی ہیں جہاں پہلی بار ایک بلوچ شیرزال بہادر بلوچ مزاحمت کاروں کے ہمراہ جنگ کے میدان میں انکے ہمراہ رہتی ہیں۔فدائی ماھل ایک ایسی خادان سے تعلق رکھتی ہیں جہاں اسے ایک خوشحال زندگی گزارنے کے سارے سہولتیں میسر تھی لیکن وہ جذبہ آزادی اور فکرِ اسلم پہ خود کو قربان ہونے کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہی سے ایک ایسے سوچ اور فکر کا آغاز کردیتی ہیں کہ یہی فکر ہمارے آنے والے نسلوں کی خوشحالی اور آزادی کا روشن صبح ہوگئی۔
ہمارا یقین اورایمان ہے کہ فکر و نظریہِ اسلم سے لیس شارول،سمول اور ماھلووو کی قربانی ہماری غلامی سے نجات اور ہماری آزادی کی نوید ہوگئی۔
ما ں شارول نے فکرِ اسلم سے پُر ہمت بہادری اور قربانی سے ایک پیغام دی کہ قومی آزادی کے سامنے کچھ بھی معنی نہیں رکھتی یہ دنیاوی عیش و سہولتیں ،آرام و سکون ۔بس اپنے ذات کے لئے جینا کچھ بھی معنی نہیں رکھتے۔اجتماعی سوچ کے آگئے ذات کچھ بھی معنی نہیں رکھتی۔اس لئے اس جہد میں سب کو بلاخوف و ڈر مکمل اپنے ذات کی نفی کرکے اجتماعی قومی آزادی کے لئے اپنے ہست کے زرے زرے کو قربان کردینا ہے۔
یہی فکر و نظریہ استاد اسلم لیکر قربانی،بہادری اور ہمت کا نشان بن کر اور ہم کو مکمل شعوری سطح پہ اس قربانی کے لئے تیار کرچکے ہیں۔اور اسی فکر ونظریہ کو لیکر ساری قوم تک پہنچانا ہے۔
ماں شارول کی قربانی اور عمل نے آج بلوچ مزاحمت تحریک کو ایک نئی روح بخشی اور ہر بلوچ عورت ماں شارول بننا چاہتی ہے اور وطن کے لیے قربان ہونا چاہتی ہے ماں شاورل فکرِ اسلم سے لیس ایک ایسی چیدگ بن چکی ہیں جو ہر دل اور روح کے لئے ہمت ،قربانی اور بہادری کے نشان بن چکی ہیں۔
میرا یقین ہے شارول ،سمول اور ماھلو دیوانِ اسلم اور فدائیوں کے دیوان میں بیٹھ کر خوب ہنس اور مسکرئے رئے ہیں۔شارول ،ماھلو سے قصے سن رہا ہوگا۔اپنے جگر کے پھول ماھو اور میرو کا ھال پوچھ رہا ہوگا۔لازم ماھلوو کہہ رہی ہوگی ماھوو اور میروو کو فکرِ اسلم پہنچ چکی ہے اور وہ فکرِ اسلم سے سیریاب ہورہے ہیں۔انکا ہر دن ہر ساھت ہر پہل بہارِ اسلم میں پھولوں کی باغیں آبار کررہے ہیں۔سمول ماھلوو سے ھالِ بلوچستان پوچھ رہی ہوگئی اور اور ماھلوو کہی رہی ہوگی کہ بلوچ ورنا آتشِ جنون دل میں لیے ہر اندیھرئے کو مٹانے کے لئے ہاتھوں میں روشن مشل اور دل میں ہزاروں بہار لئے فکر و نظریہِ اسلم کے ساتھ آخری سانس تک بقاء پانے کو تیار ہیں۔ماھلووو لازم شارول اور سمول کو طالب اور خالد سے متعارف کررہے ہوں گئے اور کہہ رہے ہیں دیکھ دو بھائی ایک ساتھ ایک فدائی مشن میں ہمارے ساتھ اس مہر زمین پہ فدا ہوکر آج ہمارے وجود کے رگ رگ میں شامل ہیں۔شارول اور سمول اپنی امید بھری آنکھوں اور ہنسی بھری ہونٹوں سے طالب اور خالد دیکھتے اور زور سے ہنس رہے ہوں گئے۔اور خالد دیوانِ اسلم اور اپنا سر شارول کے گود میں رکھ کر سارے دیوان کو سن رہے ہیں۔شارول اپنی ہاتھوں سے خالد کے سر کے بالوں پہ اپنا ہاتھ پھیر رہی ہیں اور مہر زمین کو محوس کردہی ہیں۔اور اس قربانی پہ فکر کررہی ہیں جو وہ مہر زمین میں فدا کرچکی ہیں۔
ریحان جان بھی مہر خمار سے سرشار محو گفتگو ہیں اور سمول کو مہر بھری چاہت اور دل کی گہرائیوں سے طالب اور خالد کی آمد کا خوشی کا اظہار اپنے روح کی گہرائیوں سے کہہ رہے ہیں۔ ریحان جان سمول سے کہہ رہی ہیں طالب سے آپریش ہیروپ کا قصہ پوچھ ۔ سمول ریحان سے کہہ رہی ہیں وہ تو کب ہم نے پوچھ لیا ہے۔ جس پہ دیوانِ اسلم میں موجود سربازِ بلوچستان قہقوں میں شروع ہوجاتی ہے۔
انہیں قہقوں میں فدائی سر بلند کی آواز بھی شامل ہوتی ہے۔اور وہ کہنا شروع کرتے ہیں دیکھ آج مہر زمین اور قربانی سے بہار پانے والی قربانیِ ابا اسلم نے ہم کو یکجا یک مشت کردیا ہے۔اور پوری قوم کے دل و روح کو ہمت اور حوصلوں سے پُر کردیا ہے۔
آج یہاں ہماری محفل میرے لئے زنگی کے گہرئے سے گہرئے خوشی اور سکون سے اور گہرا ہے۔اس سے بڑھ کر اگر کسی بلوچ کی اور چاہت ہو تو وہ اصل مہر و وفا اور مہر چمن سے نا آشنا ہوگی۔اگر اس مہر و وفا سے نا آشنا ہو اس سے بڑھ کر بد بختی کیا ہوگی۔ بلند کی ان مہر بھریں باتوں کو سن کر شارول ،سمول اور ماھلووو اپنے اپنے داستانیں ایک دوسرے کو سنانے کے لئے ایک دوسرے کو کہیں باہر جاکر بیھٹنے کے لئے اشارہ کر دیتی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں